Pages

Friday 26 December 2014

اور آنا ہمارا میڈیکل کالج میں


31 دسمبر 2012 کے دن ہم دو عدد سینئرز  کے ہمراہ اپنی زندگی کے طویل ترین سفر پر روانہ ہوئے۔خوشی ہمارے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ خوش کیوں نہ ہوتے آخر ڈاکٹر بننے جارہے تھے۔گھر سے نکلتے ہی ہمارا سینہ تن گیا۔ ہم سر اٹھا کر چلنے لگے کہ آخر لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ ہم ڈاکٹر بننے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر بننا کوئی مذاق تھوڑی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ  جب ہم اگلی صبح جب ہم بہاولپور پہنچے تو ہمارے شانے جھکے اور بال بکھرے ہوئے تھے اور ہماری حالت ایسی تھی جیسے ابھی میدان جنگ سے واپس لوٹے ہیں۔

دوسرے میڈیکل کالجز میں پڑھنے والے "تجربہ کار" دوستوں نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر رکھا تھا کہ قائد اعظم میڈیکل کالج  آ کر ہماری بڑی خاطر تواضع ہونی ہے، چنانچہ ہم نے شروع سے ہی احتیاط برتنا شروع کر دی۔ جن سینئر کی مہمان نوازی سے  ہم لطف  اٹھا رہے تھے انہیں کے ساتھ  ان کے ہاسٹل "جوہر ہال" میں رہنے کی کوشش کی ۔  کبھی انہیں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ہوا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔آخر کار ہم پکڑے گئے اور وہ بھی اپنے ہم علاقہ اور ہمسفر آزاد کشمیر کے سینئرز کے ہاتھوں۔اور پھر ساری رات ہماری درگت بنتی رہی۔ آج بھی اس دن کے بارے میں سوچیں تو یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ
دیکھا جو تیر کھا کر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

پھر تو جیسے سلسلہ چل نکلا۔ اس بار علاقے ، زبان، نسل کے امتیاز کے بغیر  ہماری خاطر تواضع ہونے لگی اور ہماری حالت پنجرے میں بند کسی پنچھی کی طرح ہو گئی۔ دل بس یہی کرتا تھا کہ پنجرہ توڑ کر بھاگ کھڑے ہوں۔

ابتدا میں ہمارا ارادہ تھا کہ "مطلع" صاف ہونے تک سینئر (طلحہ) بھائی کے پاس ہی قیام کیا جائے۔ لیکن "موسم" کی صورت حال اور بگڑتے دیکھ کر ہم نے جوہر ہال سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ تب یہ معلوم نہیں تھا کہ پانچ سالوں میں سب سے یادگار دن یہی شروع کے دن ہی ہوتے ہیں جب بندہ خوف سے دبکا ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ خوف تحلیل ہو جاتا ہے ۔ بندہ فولنگ کی آگ سے کندن بن کر باہر نکلتا ہے اور ایسا  سٹوڈنٹ بن جاتا ہے جسے اپنے کالج کی روایات اور طور طریقوں کا اچھی طرح علم ہو تا ہے۔

خیر ہم نے جوہر ہال کو خدا خافظ کہاا ور اور اپنے ہاسٹل عباس منزل جانے کے لیے کمر باندھ لی۔ آنکھوں میں امیدیں لیے ہم اپنےروم میٹ کے ساتھ عباس منزل کی حدود میں داخل ہوئے۔آگے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطرناک کھنڈر ہے اور اس کے آگے اپنےپنجے پھیلائے کھڑا پرانا سا خوفناک درخت ۔ چاروں طرف گھپ اندھیراتھا بس  سامنے کھمبے پر ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی میں وہ کھنڈر کسی بھوت بنگلے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ یقینا اس کھنڈر کے باہر ہر اماوس کی رات کو بھوتوں کا رقص ہوتا ہو گا، ہم نے سوچا مگر دل کی بات کو زبان پر نہ لا سکے۔ بس کمزور سی آواز میں آواز میں اپنے روم میٹ سے پوچھا "کیا یہی ہے عباس منزل؟ یہیں رہنا پڑے گا ہمیں؟"

اس نے کھنڈر سے چند قدم دور ایک اور عمارت کی طرف اشارہ کیا جو اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ اس  رات ہم فولنگ سے خوفزدہ لڑکوں کو جوہر اور غزالی ہال  ہاسٹلز کا اپنے پاس سے گھڑا ہوا ہیبت ناک نقشہ سناتے رہے  جہاں سینئر قیام پذیر تھے اور ان کے چہروں پر اٹھتی  خوف کی لہریں دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستے رہے۔

کالج کا پہلا دن بھی بہت عجیب تھا۔ہماری حالت  ونڈر لینڈ میں کھو جانے والی ایلس کی طرح تھی۔ذہن  کے اندر "ایم بی بی ایس بہت مشکل ہے" کی تکرار ہو رہی تھی۔ تین سو سے اوپر کی کلاس  دیکھ کر ہم اور گھبرا گئے۔ اس دن کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہم اس نئی جگہ کیا کر ہے ہیں۔ہر شے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔ گھر سے نکلتے وقت جو خوشی تھی دل میں وہ  بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ دو دن میں ہی ہماری ہمت جواب دے گئی۔ موٹی موٹی کتابوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور ہم نے نئے بنائے ہوئے دوستوں کے ساتھ مل کر گھر واپس بھاگ جانے کے ارادے بنانا شروع کر دیے لیکن حالت یہ تھی کہ
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

دوسری طرف کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب والا معاملہ بھی درپیش تھا یعنی گھر واپس جاتے بھی تو کس منہ سے جاتے۔ چنانچہ اپنے تمام منصوبے مناسب وقت آنے تک موخر کر دیے۔


کالج کا ایک منظر


شروع کے دنوں میں یہ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ لیکچر ہال کدھر ہے، لیب کدھر ہے اورDH کدھر۔ بس عوام جہاں کا رخ کرتی ہم بھی چپ چاپ ان کے پیچھے وہیں چلے جاتے۔ ایک دفعہ غلطی سے ہم سیکنڈ ائر کے لیکچر ہال میں  داخل ہو گئے۔ خوش قسمتی سے ہمیں جلد ہی اپنی  اس ناقابل معافی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس  سے پہلے کہ ہماری درگت بننا شروع ہو جاتی ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

بہار تک تو جیسے تیسے وقت گزر گیا۔ چھٹیاں گزار کر واپس آئے تو ملک میں الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی اور دوسری طرف ہمارا  ہاسٹل عباس منزل بھی سیاسی رنگ میں رنگ چکا تھا۔ جدھر دیکھو لڑکے سیاسی گفتگو میں مگن۔ شیر اور بلے کے سپورٹرز کے درمیان دھواں دار بحثیں جاری رہتی تھیں چاہے ان کا کوئی نتیجہ برآمد ہو کہ نہ ہو۔ تیر کو سب نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا تھا۔ ہمارے الیکشن ہونے میں گو تین سال باقی تھے لیکن پھر بھی اس معاملے میں دخل دینا لازمی سمجھا اور ہاسٹل میں عمران خان کی وکالت شروع کر دی۔ کچھ دن بعد ہاسٹل میں یہ حالت ہو گئی کہ اگر صرف عباس منزل میں الیکشن کروائے جاتے تو  PTIآسانی سے حکومت بنا سکتی تھی۔ خیر الیکشن کے بعد تو ہماری یہ حالت ہو گئی کہ ہم منہ چھپاتے پھرتے۔ کمرے سے باہر نکلنا بھی کم کر دیا۔ ہم جہاں کا بھی رخ کرتے وہاں شیر کے سپورٹرز ہمیں چڑانے کیلئے موجود ہوتے۔یہ زہر تو ہم نے ہنس کر پی لیا مگر اصل امتحان ابھی باقی تھا۔

بہاولپور آنے سے پہلے ہمیں یہاں کی گرمی کے خوب قصیدے سنائے گئے تھے۔مگر اس وقت ہم اپنی ہی دھن میں گم تھے اس لئے لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ خیر جب گرمی شروع ہوئی تو ہمیں دن میں تارے نظر آگئے۔ ایسی گرمی نہ دیکھی نہ سنی۔ اوپر سے بجلی غائب۔ ہاسٹل میں سارا دن ہم بارش کی دعائیں مانگتے رہتے۔پھر جب ہاسٹل میں جنریٹر لگا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر جنریٹر بھی ایسا نخریلا نکلا کہ ہفتے میں چار دن چلتا اور بقیہ تین دن آرام فرماتا۔ اب جنریٹر سے کیا شکوہ۔ ادھر اپنا کولر اور پنکھا بھی گرم ہوا دینا شروع ہوگئے۔ بقول شاعر
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن  پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

عباس منزل کی ان گنت خصوصیات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہاں ہر طرح کے کیڑے مکوڑے  وافر مقدار میں موجودتھے۔ اڑنے والے کیڑے، رینگنے والے اور وہ کیڑے بھی جو کمرے میں  کوئی سوراخ نہ ہونے کہ باوجود بھی کہیں آسمان سے ٹپک پڑتے تھے۔ اوپر سے کوئی بلی بھی کسی لمحے چھلانگ لگا کر آپ کی نیند کا بیڑہ غرق کر سکتی تھی۔

خیر گرمیاں جیسی تیسی گزر ہی گئیں۔ اب اصل دن یعنی پڑھائی کے دن شروع ہو گئے۔ پھراس ہاسٹل کے (جہاں رات کو الو بولتے تھے) معمولات ہی بدل گئے۔ اکثر لوگوں کی طرح ہم نے بھی  الو کی ہی پیروی کرتے ہوئے رات کو جاگنا اور دن کو سونا شروع کر دیا یہ سوچ کر کہ کوئی وجہ تو ہے کہ مغرب میں الو کو دانش مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سب سے تیزی سے جو دن گزرے وہ پیپرز کے تھے۔ آخری دو مہینے آئے اور پلک جھپکنے میں گزر گئے۔پھر وہ دن بھی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ جی ہاں رزلٹ کا دن۔ہمارے بارے میں کچھ لوگوں کی پیشن گوئی تھی کہ دو سپلیاں تو کہیں نہیں گئیں۔ ہم گھر بیٹھے تھے کہ دوست کا میسج آیا "میں پاس ہو گیا ہوں"۔
"مبارک ہو"  ہم نے پھر پوچھا "میرا کیا بنا"۔
"تو بھی پاس ہے" گو اس نے بے یقینی سے کہا تھا مگریہ لفظ سننے کیلئے ایک سال سے ہمارے کان ترس رہے تھے۔

خیر جب ہم نے ہاسٹل میں قدم رکھا تو ہر کوئی ہمیں حیرت سے دیکھتا اور سوالیہ انداز میں پوچھتا "تم بھی پاس ہو؟''۔ ہر کسی کی آنکھوں میں بے یقینی ہوتی۔آخر کسی کو یقین کیوں نہیں آتا کہ  ہم بھی پاس ہیں۔اس "تم بھی پاس ہو" نے ابھی تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔

ایک سال پہلے ہم کالج سے بھاگنے کہ منصوبے بنا رہے تھے۔ اب اتنے مانوس ہوگئے ہیں کہ یہ اپنے گھر کی مانند لگتا ہے۔ وہ سینئر جن سے ہم خوف کھاتے تھے بڑے بھائیوں کی طرح لگتے ہیں۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس ہوگئے صیاد سے ہم
اب رہائی ملی تو مر جائیں گے۔۔۔


پس تحریر: اصل میں یہ تحریر ہم نے اپنے کالج میگزین کیلئے لکھی تھی مگر چونکہ ان دنوں ہمارے بلاگ پر تحاریر کا "کال" پڑا ہے تو ہم نے سوچا کیوں نہ ایک بار پھر انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو لیا جائے۔ آخر اس میں مضائقہ کیا ہے :)

مکمل تحریر >>

Friday 21 November 2014

سچ، محبت اور ذرا سا کینہ- خوشونت سنگھ کی آپ بیتی پر ایک تبصرہ


خوشونت سنگھ کو دنیا سے گزرے ہوئے بمشکل ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا۔ ان کی آپ بیتی کے چرچے سنے تھے مگر اس کے مطالعہ کی تحریک ان کی وصیت پڑھنے کے بعد ملی۔ اپنی وصیت میں اس شخص نے جس نے سینہء خاک پر کوئی  سو برس گزارے تھے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کی راکھ کے ایک حصے کو پاکستانی پنجاب کے ایک دور دراز گاؤں ہڈالی میں بھیج دیا جائے۔۔۔۔۔ وہ گاؤں جو اس کی جنم بھومی تھا ۔۔ جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی اور اپنے ابتدئی دن مشفق دادی کے زیر سایہ گزارے تھے۔

آپ بیتی کا نام Truth, love and little malice ہے جس کا اردو ترجمہ "سچ محبت اور ذرا سا کینہ" کے عنوان  سے کیا گیا ہے۔ نوے سال کے وسیع کینوس پر بکھرے واقعات میں زندگی کے سبھی رنگ موجود ہیں۔ کبھی سچ کا رنگ نمایاں ہوتا تو کبھی محبت کے رنگ بکھرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی کبھی کینہ ان دونوں پر غالب آ جاتا ہے (مگر ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں)۔

مجموعی طور پر یہ کئی پرتوں پر مشتمل شخصیت کی کہانی ہے، جس  میں مختلف تضادات ایسے جمع ہو کر رہ گئے ہیں کہ جیسے منفی اور مثبت ذرات مل کر ایک  ایٹم کی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ شخص جو خدا کو تو نہیں مانتا مگر اسے اپنے سکھ ہونے کے تشخص پر ناز ہے اور وہ سکھ تاریخ پر کئی کتب لکھتا ہے۔۔۔۔۔ اسے تقسیم ہند کے وقت لاہور سے افراتفری کے عالم میں بھاگنا پڑتا ہے مگر دنیا  میں وہ پاکستان کے دوست کی حثیت سے پہچانا جاتا ہے اور ہر دوسرے برس پاکستان میں آن موجود ہوتا ہے۔

خوشونت سنگھ کی زندگی کی زندگی کی کہانی پنجاب کے ایک گاؤں ہڈالی سے شروع ہوتی ہے۔ بچپن دادی کے زیر سایہ گزرتا ہے اور اپنی دادی کا غیر مرئی عکس وہ ساری عمر اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ پھر وہ وہاں سے دلی کا رخ کرتا ہے اور کچھ برس وہاں گزارنے کے بعد وکالت کی تعلیم کی خاطر لندن کیلئے رخت سفر باندھتا ہے۔۔۔ اس دوران وہ طرح طرح کے حسین حادثوں سے دو چار ہوتا ہے جن کے بغیر یہ آپ بیتی نامکمل رہتی۔۔۔ پوری کتاب میں خوشونت سنگھ نے اپنے جنسی تجربات کو بھی کھل کر بیان کیا ہے مگر ان کے بیان کے معاملے میں وہ ہمارے جوش ملیح آبادی کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکے۔

بحرحال لندن سے واپسی پر خوشونت سنگھ  کو نہ وکالت راس آتی ہے اور نہ کوئی سرکاری نوکری۔ وہ کئی برس یورپی ممالک میں ہندوستانی سفارت کار کی حثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ ہر نوکری کے بعد وہ اپنے امیر باپ کا محتاج ہوتا ہے اور خاندان والے اسے  نکھٹو کا خطاب دیتے ہیں۔

آخرکار 36 برس کی عمر میں جا کر خوشونت سنگھ کو اپنی منزل کا سراغ ملتا ہے۔ ذاتی تجربات  اور دل کے جذبات قلم سے ایک ناول کی صورت میں امڈتے ہیں دنیا جنہیں ٹرین ٹو پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔۔۔

پھر یہاں سے خوشونت سنگھ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ صحافت و ادب کی وادیء خارزار میں قدم رکھتا ہے اور پھر یہ سفر اس کی زندگی کے سفر کے ساتھ ہی اختتام پزیر ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ ہندوستان کے کئی اخبارات کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف اس کے قلم سے کئی ادبی شاہکار جنم لیتے ہیں۔ وہ سکھوں کے مذہبی صحائف کا پنجابی سے  انگریزی ترجمہ  کرتا ہے تو دوسری طرف اقبال کی شاعری کے سحر میں مبتلا ہوکر ان کی شاہکار نظموں شکوہ اور جواب  شکوہ کو بھی انگریزی کے قالب میں ڈھالتا ہے۔۔۔۔ یوں خوشونت سنگھ کی شخصیت  کئی زبانوں اور تہذیبوں کا ایک حسین سنگم بن جاتی ہے۔

اپنی خدمات کے صلے میں اسے ہندوستان کا اعلی ترین اعزاز پدم بوشن بھی ملتا ہے (جسے وہ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے دوران واپس کر دیتا ہے) اور  وہ  ہندوستان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا رکن بھی بنتا ہے۔۔۔ ان دنوں اقتدار کی رسا کشی اور کرسی کی خاطر کشمکش کو بھی مصنف نے کھل کر بیان کیا ہے۔ گاندھی/نہرو خاندان کی اندرونی سیاست کے متعلق کئی انکشافات بھی اس میں  شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ حصہ جس میں اندرا گاندھی اور مانیکا   گاندھی (یعنی ساس بہو) کے درمیان ہونے والے مشہور زمانہ جھگڑے کا تذکرہ کیا گیا ہے پڑھنے کے قابل ہے کیوں کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہندوستانی سیاست میں اس حادثے کی تلخی ماند نہیں پڑی۔

خوشونت سنگھ کا پاکستان سے بھی گہرا تعلق  رہا ہے جس میں سے کئی یادوں کو انہوں نے اس کتاب کا  حصہ بنایا ہے۔ اردو والوں کے لئے بھی وہ اجنبی نہیں کیونکہ ان کی زندگی میں ہی ان کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی تھیں اور وہ خود بھی اردو میں مہارت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب بیسویں صدی کے جنوبی ایشیا پر ایک اہم دستاویز کی حثیت رکھتی ہے۔ اسے نگارشات پبلشرز لاہور نے شایع کیا ہے اور ان کی دوسری ترجمہ شدہ کتب کی طرح یہ بھی قابل تحسین ہے!!!
مکمل تحریر >>

Wednesday 20 August 2014

مودی، مذاکرات اور امن کا تماشا


بھارتی حکومت نے حسب معمول کچھ دن بعد پاکستان کے ساتھ  خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ہونے مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے۔  ہمیشہ کی طرح اس  کا ملبہ پاکستان کے سر پر ڈالا گیا ہے کہ  چونکہ پاکستان نے کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کر کے ان کے اندرونی معاملات میں دخل دیا ہے اس لیے تب تک مذاکرات نہیں ہو سکےجب تک  کہ پاکستان اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہ کر لے۔

وہ بھی ایک دور تھا جب بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی مذاکرات کے لئے بس پر سوار ہو کے پاکستان آئے تھے۔ تب بھی وہاں BJP کی حکومت تھی اور ہندووتا کا ایجنڈا ان کے منشور میں شامل تھا لیکن واجپائی جی کو یہ بات نہ سوجھی تھی کہ پاکستان علیحدگی پسندوں ملاقات کر کے انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا مرتکب ہو رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان پہلے دراندازی بند کرائے پھر مذاکرات کریں گے۔

 مودی جی کی نظریں مگر کچھ زیادہ ہی دوربین ہیں شاید اسی لیے وہ اتنے دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ورنہ وہ مذکرات میں روڑے اٹکانے کیلئے کوئی اور اچھا سا بہانہ بھی کر سکتے تھے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اب ہمارے پاس آلو پیاز ختم ہو گئے ہیں اس لئے ہم اس معاملے میں پاکستان  کی کوئی مدد نہیں کر  سکتے اس لیے پاکستانی پہلے اپنے ملک میں آلو پیاز پیدا کرے اور پھر مذاکرات کی ٹیبل پہ آئیں۔  اس سے کم از کم ایک دہائی  تک کوئی مذاکرات کا نام نہ لیتا۔ خیر لوگ پریشان نہ ہوں۔۔۔ مذاکرات ختم ہونے سے آلو پیاز کی ترسیل پر  کوئی اثر نہیں پڑے گا ایسے ہی جیسے اس سے پاکستانی ہائی کمیشنر کی اور علیحدگی پسندوں کی ملاقاتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

اسی شور شرابے میں انڈیا کے ایک معروف میڈیا گروپ کا ٹی وی چینل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی میڈیا گروپ ہے جس  کے ساتھ مل کر ہمارے جنگ/جیو نے "امن کی آشا" کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ہم نے سوچا  کہ امن کی آشا والے  امن کے لڈو بانٹیں نہ بانٹیں کم از کم مذاکرات کے تعطل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور بولیں گے۔ مگر وہاں پاکستان پر اس قدر کیچڑ  اچھالا جا رہا تھا کہ چینل کے اینکرز کے چہرے بھی اس آلودہ نظر آ رہے تھے۔



امن کا تماشہ دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوا کہ یہ ہندوستان اٹل بہاری واجپائی  کا ہندوستان نہیں اور نہ ہی مرار جی ڈیسائی کا ہندوستان۔۔۔ یہ مودی کا ہندوستان ہے جہاں سیکولر چہرے بھی زعفرانی قشقوں سے داغدار ہیں اور ان کی زبانوں سے ایسا زہر نکلتا ہے کہ  ان میں اور آر ایس ایس کے غنڈوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

شاید اسی لیے پاکستان امن کے لئے ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو انڈیا دس قدم  پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ نئی نئی معاشی ترقی کا غرور ہے یا مستقبل  کے عزائم کی طرف ہلکا سا اشارہ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس ساری صورت حال سے کم از کم بھارتی حکمرانوں کی نیت کھل کر سامنے آ رہی ہے۔

مکمل تحریر >>

Wednesday 21 May 2014

جیو کی بندش کے بعد کچھ کہانیاں

(1) نیا مشن 

"مشن مکمل ہوا سر۔۔۔" نامعلوم لباس میں ملبوس ایک نامعلوم شحص نے فون پر اپنے افسر سے کہا۔
فون بندکر کے وہ دھیرے سے اٹھا اور ٹی وی لاؤنج میں آگیا اور اس کے بھاری بوٹوں کی دھمک سے پورا  گھرگونج اٹھا۔اس نے ریموٹ اپنے ہاتھوں میں لیا اور چینل بدل بدل کر دیکھنے لگا کہ کہیں اور تو کوئی چینل "قابلِ اعتراض" مواد تو نہیں دکھا رہا۔۔۔۔۔پھر یکدم اس کا ہاتھ رک گیا اور اس کی نظریں ایک اور چینل پر جم گئیں!!! ایک نیا مشن اس کے سامنے تھا۔۔


(2) مبارک ہو

پاکستان سے باہر ایک ملک میں مقیم ایک بہت بڑے انقلابی عالم اپنے جہازی سائز کمرے میں بیٹھے تھے ۔ نہ صرف کمرہ ان کے معتقدین سے بھرا ہوا تھا بلکہ ان کی تنظیم کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ (جو کہ سب سے بڑا شعبہ تھا) کی وجہ سے پاکستان کے تقریبا ہر شہر سے کارکن سکائپ کے ذریعے اس بابرکت محفل سے جڑے ہوئے تھے۔ حضرت ایک خاص فون کے انتظار میں تھے۔۔۔۔ گو وہ جو خبر سننا چاہ تھے نہ صرف ٹی وی پر آگئی تھی بلکہ اس  سے  پہلے ہی ان کے سوشل میڈیا کے مجاہد انہیں اس عظیم معرکے میں فتح کی خوش خبری دے چکے تھے۔۔۔۔۔ مگر اصل چیز تو وہ فون کال تھی جس کا انہیں انتظار تھا۔۔۔

کمرے میں ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا اتنا ہی سب کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا( کہ  کہیں فون کرنے والوں کی  ڈائری سے حضرت صاحب کا فون نمبر تو نہیں کاٹ دیا گیا) پھر یکدم ان کے فون پہ پاکستان کا قومی ترانہ (موسیقی کے ساتھ) بجا اور نہ صرف حضرت صاحب کی جان میں جان آئی بلکہ متعقدین  نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

پھر وہ موبائل کان سے لگا کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ جسم تو ان کا یہیں تھا مگر روح کہیں دور  راولپنڈی اسلام آباد کے گرد بھٹک رہی تھی۔جب انہوں نے فون کان سے ہٹایا تو ان کے چہرے سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ پھر وہ یکدم بول پڑے"مبارک ہو۔۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔ پیمرا نے آج  ایک فتنے کا خاتمہ کر دیا ہے۔۔۔انقلاب کی منزل اب دور نہیں۔۔-پرانے نظام کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔۔۔۔بس اب انقلاب آ رہا ہےانقلاب۔۔۔۔"

حضرت کا یہ کہنا تھا کہ ان کے کارکن سجدے میں گر گئے۔ ان کی آنکھوں میں شکر کے آنسو تھے۔۔۔۔جبکہ حضرت صوفے پر اور پھیل کر بیٹھ گئے اور اگلی فون کال کا انتظار کرنے لگے۔


(3) کھیل اور کھلاڑی

کھلاڑی نما سیاستدان  (یا سیاستدان نما کھلاڑی) نے   ایک ٹی وی چینل بند کرا کے گویا اپنے کیریئر کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔اب راہ کا اصل پتھر تو ہٹ گیا ہے اس لیے منزل زیادہ دور نہیں ۔ ۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔ابھی کل ہی مودی جی نے الیکشن جیتا ہے۔ انڈیا کے اگلے وزٹ میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرنا پڑے گا۔۔۔۔آخر پتا تو چلے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کی موجودگی میں  اتنی بڑی کامیابی انہوں نے حاصل کی بھی تو کی کیسے۔۔۔۔۔ساتھ امن کی آشا والے دوستوں نے اب لفٹ تو نہیں کرانی۔ کچھ نئے دوست تو ڈھونڈنے پڑیں گے۔۔۔میں نے کشمیر پہ جو بیان دیا تھا  انڈیا میں اس پہ تو مودی جی بہت خوش ہونگے۔۔۔اور پاکستان میں بھی ویسے بھی اب بس اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینا ہے۔۔۔۔ خیر جن  کے پاس بلڈوزر ہیں وہ تو ساتھ ہی ہیں مگر عوام کو دکھانے کیلئے دھکاتو دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ دیوار گرانے کا اصل کام تو بلڈوزر کا ہی ہوتا ہے۔

یہی کچھ سوچتے سوچتے ہو ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں اس کی جماعت کے لیڈر (یا ٹیم کے کھلاڑی) بیٹھے تھے۔ کچھ  چہرے روشن تھے جبکہ کچھ چہروں پر اداسی کی رمق تھی۔

"حضور "ایک شحص نے کھڑے ہو کر کہا "کہیں ہم سے نادانستگی میں کچھ غلط تو نہیں ہو گیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جس پچ پر کھیل رہے ہیں اسی کے ایک حصے کو  اکھاڑ دیا ہے۔۔۔کل کو اگر باہر سے آ کر کسی نے پوری پچ کا بیڑا غرق کر دیا تو!!!!" اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
"کوئی بات نہیں " کھلاڑی نے جواب دیا"ہم ایک نئی پچ بنا لیں گے"۔
اس بات پر سب نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے اور کھلاڑی کا سینہ فخر سے تن گیا۔۔۔پھر وہ سب کھلاڑی کی ذہنی اپج، گہری نظر اور بال کو ہمیشہ نشانے پر پھینکنے کی  خاصیت کی تعریف کرنے لگے۔۔

"مجھے لگتا ہے کہ کھلاڑی نے اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑی کو آؤٹ کر دیا ہے" کمرے میں  موجود ایک شحص نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی۔
"یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھلاڑی اندر سے دوسری ٹیم کہ ساتھ مل گیا ہو"
"اور یہ بھی ممکن ہے کہ کھلاڑی ہمیشہ سے دوسری ٹیم کا حصہ رہا ہو" دونوں بے یقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
باہر سے اچانک شور وغل سنائی دیا اور کھلاڑی اٹھ کر بالکونی پر آ گیا۔

گھر کے باہر نوجوانوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لڑکیاں تھیں جو کھلاڑی کو دیکھنے آئی تھیں۔۔۔۔کچھ لڑکے تھے جو ان لڑکیوں کو دیکھنے آئے تھے۔۔۔اور باقی سب وہی لوگ تھے جو کسی بھی جگہ ہجوم دیکھ کر تماشہ دیکھنے جمع ہو جاتے ہیں۔ ہاتھ ہلاتے ہلاتے کھلاڑی کو وہ منظر یاد آ گیا جب وہ ایک بڑی سی ٹرافی ہاتھ میں تھامے یونہی ہاتھ ہلا رہا تھا اور لوگ اسےکسی بادشاہ کی طرح گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ اب اس کو بلڈوزر سے دیوار کے گرنے اور پھر مودی جی کی طرح اپنی عالی شان فتح کا انتظار تھا۔


(4) برقعہ

مولوی صاحب (جو کہ ایک  غیر سیاسی مذہبی جماعت کے رکن بھی تھے)اپنے محلے کے عمائدین سے محو گفتگو تھے۔۔۔کہ اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قوم کی ایک دجالی فتنے سے جان چھوٹی۔۔۔۔جلد ہی سب یہودیوں اور ہندوؤں کے ایجنٹوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔۔۔۔ اب انشاءاللہ محلے کےسب لڑکے سدھر جائیں گے اور لڑکیوں پر جملے کسنا چھوڑ دیں گے۔۔۔اور لڑکیاں ساری ساری رات پیکج لگا کر باتیں کرنا بھول جائیں گی۔۔۔لوگوں کے اخلاق بہتر ہونگے۔۔۔نہ صرف مسجد میں ان کی آمد بڑھے گی بلکہ مجھے چندہ بھی زیادہ ملے گا۔۔۔گھروں میں یہ ناچ گانا بھی بند ہو جائے گا۔۔۔۔اور تو اور پردے کا چلن بھی بڑھے گا۔۔۔۔مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ سب عورتیں برقع پہننا شروع کر دیں۔۔۔۔یہ خیال آنا تھا کہ مولوی صاحب یکدم پریشان ہو گئے۔


(5)کافر کافر۔۔۔۔

ایک فرقہ پرست  تنظیم کے سربراہ اپنے کارکنوں سے :اللہ کے فضل و کرم سے آخر کار ہم نے اپنی فوج پر انگلیاں اٹھانے والے ہر ہاتھ کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور ہر وہ آنکھ نوچ ڈالی ہے جس نے ہمارے ملک کی نظریاتی سرحدوں پر گندی نگاہ ڈالی تھی۔۔۔آئندہ بھی جو ایسی مذموم حرکت کرے گا اس کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہے گا۔۔۔مگر میرے بھائیو! تم نے اپنے اصل مشن کو نہیں بھولنا۔۔۔۔اب ذرا زور سے ایک نعرہ  لگاؤ کہ۔۔۔۔"کافر کافر شیعہ۔۔۔۔۔"


(6)بند ہو گیا ہے

"سنا ہے جیو بند ہو گیا ہے "ایک مزدور نے دوسرے مزدور سے کہا۔
"جیو؟ یہ جیو کیا ہے"
"تمارے گھر جیو نہیں آتا۔۔۔ ویسے تو اب ہمارے گھر بھی نہیں آتا۔۔۔ مگر پہلے تو آتا ہو گا ناں؟"
"ہمارے گھر تو کوئی نہیں آتا۔۔بس کونسلر صاحب الیکشن سے پہلے ایک بار درشن دکھاتے تھے وہ بھی اب  نظر نہیں آتے۔۔"
"ارے بیوقوف ٹی وی چینل کی بات کر رہا ہوں"
"ہمارے گھر تو ٹی وی نہیں ہے"
"ٹی وی تو میرے گھر بھی نہیں ہے وہ تو میں ایویں شو مار رہا تھا۔۔بس کبھی کبھی چچا اشرف کے کھوکھے پر دیکھ لیتا تھا--۔۔وہ بتا رہا تھا کہ جیو بند ہو گیا ہے۔"
"چلو چلو کام پر لگو" پاس سے گزرتے ہوئے ٹھیکیدار بولا"ورنہ میں نے تمارا نان نفقہ بند کر دینا ہے۔بڑے آئے۔۔۔۔۔۔" انہوں نے اپنے اپنے بیلچے اٹھائے اور ریت کے ڈھیر کے اندر گھس گئے۔

(7) کباب کی پلیٹ

چینل بند ہونے کی خبر سب سے آخر میں اس شحص تک پہنچی جس کے ذمے اس ملک کا نظام چلانے کی ذمہ داری تھی۔۔وہ رات کا کھانا کھا رہا تھا جب اس کی بیوی نے اسے یہ خبر دی۔
"اچھا تو یہ بات ہے۔"اس نے سر اٹھا کر کہا " میں نے تو کوئی حکم جاری نہیں کیا۔۔۔ پھر چینل کی بندش کا  یہ حکم آخر کہاں سے جاری ہوا ہے۔"
"وہاں سے جہاں سے آپ کی جلاوطنی کا حکم  جاری ہوا تھا۔۔۔۔"
"اچھا"اس نے ایک گہرا سانس لیا "مجھے وہ کباب کی پلیٹ تو اٹھا کر دو ذرا!!!!"


نوٹ: ان کہانیوں کے تمام حالات تو فرضی ہیں مگر کردار سو فیصد اصلی ہیں ۔۔۔اس لئے کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ نہیں ہو گی۔


مکمل تحریر >>

Thursday 15 May 2014

عمران خان، دھاندلی اور یہ فرسودہ نظام

عمران خان کے جلسےکے بعد سے اب تک میں حیرت زدہ ہوں کہ وہ جس خود ساختہ دنیا میں رہتے ہیں ، وہ ان کی اپنی تخلیق کردہ ہے یا پھران کےاردگرد موجود مشیروں اور ہاں میں ہاں ملانے والے چمچوں  کی مدد سے بنائی   گئی ہے۔عمران خان کا سارا زور دھاندلی پہ ہے۔ ان کے مطابق پورے ملک میں ایک منظم طریقے سے دھاندلی کر کے ان کی یقینی فتح کو شکست میں بدلا گیا۔ خیر اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس دعوے میں کتنی حقیقت  ہے، پھر بھی تصوراتی طور پر ہی سہی ایک غیر جانبدارمنظرنامہ پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نئے الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور یہ الیکشن بجائے فرسودہ پرچیوں والے  نظام کے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کچھ لوگ سو  سو ووٹ ڈال  دیں اور کچھ بیچاروں کو ووٹ دینے کا موقع ہی نہ ملے۔ ووٹنگ لسٹوں سے بوگس ووٹ بھی نکال دیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔اور تو اور چیف الیکشن کمشنر بھی ان کی مرضی کا تعینات کر دیا گیا ہے اور ریٹرننگ آفیسر تو اللہ میاں کی گائے ہیں۔۔۔سو دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ملک میں بھی ان کی لہر چل پڑی ہے۔ ہر دوسرے گھرپر پی ٹی آئی کا پرچم لہرا رہا ہے۔پھر 11 مئی 2013  جیسی ہی ایک صبح منصہء شہود پر آ گئی ہے۔ لوگوں میں جوش و خروش کا عالم ہے۔ٹرن آؤٹ پہلے سے بھی زیادہ ہے اور اس مرتبہ جیو نے بجائے نواز شریف کے ان کی فاتحانہ تقریر نشر کی ہے۔۔۔۔خان صاحب کیا سوچتے ہیں۔ کیا وہ پھر بھی جیت پائیں گے؟

پہلے ان کے پسندیدہ خیبر پختونخواہ میں چلتے جہاں وہ ضمنی الیکشن میں پشاور کی اہم ترین سیٹ بھی کھو بیٹھے  تھے۔اس صوبے میں ایک طرف مذہب کے نام لیواؤں کی گرفت مضبوط ہے تو دوسری طرف پشتون نیشنلزم کے ٹھیکیدار بھی اتنے کمزور نہیں ہوئے۔ وہاں سے عمران خان پہلے سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکتے۔

تھوڑا  نیچے پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ پوٹھوہار اور دارالحکومت فتح کرنے میں انہیں پہلے سے زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اور جی ٹی روڈ کے رستے لاہور تک وہ محنت کریں تو انہیں بہت بڑی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے۔لیکن پاکستان کیا لاہور تک آ کے ختم ہو جاتا ہے؟

لاہور سے نیچے چلیں تو پھر وہ علاقے آتےہیں جہاں جاگیرداروں کی گرفت بے حد مضبوط ہے جو صدیوں سے یہاں کے فرمانروا ہیں۔۔۔۔ یہاں کے اکثر لوگ ووٹ تو ڈالتے ہیں مگر اپنی مرضی سے نہیں، نسل در نسل چلے آنے والے چہروں پر مہر تصدیق ثبت کرنا  ہی ان کے نزدیک جمہوریت ہے ۔ جنوبی پنجاب میں عمران خان کے  لئے کامیابی حاصل کرنے امکانات بہت کم ہیں۔یہاں کا نظام ہی اتنا فرسودہ ہے کہ نئے لوگوں کا سامنے آنا ناممکن ہے۔

دیہی سندھ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔۔۔۔ وہی جاگیردار لوگوں کی قسمت کے مالک و مختار ہیں جو اپنے علاقوں میں اس لئے ترقی نہیں دیکھنا چاہتے کہ کہیں لوگ با شعور ہو کر اپنے حقوق نہ مانگ لیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کی طرف آتے ہیں جو مختلف مافیاز کے شکنجے میں ہے اور وہاں سے جیتنا شیر کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہے۔ شہری سندھ میں پوری جان لگانے کے بعد بھی ان کی سیٹوں کی تعداد  دوہرے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔اب رہا بلوچستان تو وہ ہمارے کھاتے سے باہر ہے۔ عمران خان کیا وہ تو ہمارے کسی ادارے یا  سیاستدان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔۔۔۔تو پھر کہاں گئی وہ عظیم الشان کامیابی جسے نواز شریف کی دھاندلی نے ہائی جیک کر لیا۔۔جتنی دھاندلی اس الیکشن میں ہوئی ہے وہ نہ بھی ہوتی تب بھی عمران کی سیٹیں 50 کے ہندسے سے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔

ڈی چوک میں عمران خان کی ریلی کا ایک منظر


عمران خان اور ان کے انقلابیوں کو ابھی یہ سمجھنے میں بہت دیر لگے گی کہ اس ملک میں رائج یہ غاصبانہ نظام ہی ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں حقیقی جمہوریت  پنپ ہی نہیں سکتی۔ جمہوریت ہو یا آمریت، یہی جاگیردار یا سرمایہ دار ہمارے مالک و مختار بنے ہوتے ہیں۔ جب تک ان سے نجات حاصل نہیں ہو تی یہ احتجاج اور یہ سب چیزیں بے سود ہیں۔

عمران خان کو بجائے دھاندلی کا شور مچانے کے ان حقیقی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے وہ اپنی ہوا چلنے کے باوجود شکست سے ہمکنار ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اس غاصبانہ نظام میں وہ تب ہی الیکشن جیت سکتے ہیں جب وہ مکمل طور پر اس نظام کا حصہ بن جائیں۔۔۔اور ان کی جماعت پر بھی وہی غاصب لوگ قابض ہو جائیں۔۔۔ کچھ لوگ تو کہتے بھی ہیں کہ پی ٹی آئی بھی ان روایتی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے جا رہی ہے جن کا موٹو اقتدار پر قابض ہونے بعد اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔

خیر یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن کبھی کبھی طاہر القادری کی اس بات پہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اس نظام کے تحت دس الیکشن بھی ہو جائیں تب بھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ وہی جانے پہچانے چہرے نام بدل کر مسند اقتدار پر فائز ہونگے اور تبدیلی چاہنے والے لوگ ہمیشہ کی طرح منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔۔۔۔
مکمل تحریر >>

Friday 9 May 2014

ہماری سیاست: کل اور آج

ایک زمانہ تھا کہ سیاست کو ایک راہِ پر خار سمجھا جاتا تھا۔ہر ایرا غیرا سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا اور لیڈر ہمیشہ وہ شخص ہوتا تھا جو صبر و استقامت کا پیکر ہو۔ہر کسی میں یہ بھاری پتھر اٹھانے کی سکت نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تب لوگ سیاست کا نام سن کر ناک بوں  نہیں چڑھاتے تھے بلکہ سیاست کو عوامی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھاکالی بھیڑیں موجود تھیں لیکن پیش منظر پر نیک نام لوگ تھے۔

 یہ پاکستان بنے سے پہلے کی باتیں ہیں جب زیادہ تر جاگیردار اور سرمایہ دار انگریز سرکار کے پاؤں چاٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ اور سیاست کے میدان کارزار میں مسلمانوں کمان پڑھے لکھے، بلند حوصلہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔۔۔ وہ میدان سیاست جس میں مولانا آزاد، محمد علی جوہر، جناح،حسرت جیسےلوگ ہوں جن پر ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے، اس کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ان میں سے اکثر نے قابض حکمرانوں کے ہاتھوں طرح طرح کے مصائب سہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگرمسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

محمد علی جناح اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر 1940 میں(تصویر: وکی پیڈیا)


مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں مصائب کسی اور نے اٹھائے اور آزادی کے بعد بنا بنایا ملک انہیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جھولی میں آ گرا ۔ یا پھر ان سپہ سالاروں کے ہاتھوں میں کچھ عرصہ پہلے انگریز سرکار سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔۔۔۔۔یعنی دکھ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔

آج ملک کے ہر شعبے میں ایک مخصوص طبقے کا راج ہے۔ فوج ملک کے اندر ایک اور ملک بنائے بیٹھی ہے۔سیاست چند  پیشہ ور جغادریوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صدیوں ہمارا استحصال کیا ہے، اور آج بھی ملک کی زمام اقتدار انھی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ ملک کو اپنے سابق آقاؤں کی طرز پر چلا رہے ہیں جن کے اقتدار کو جلا بخشنے میں ان کے آباء و اجداد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

جن لوگوں سے ہندوستان نے تقسیم  کے بعد نجات حاصل کر لی تھی  ہم مذہب ، حب الوطنی اور آزادی کے نام پر آج بھی ان کو اپنا خون پلا کر اور پروان چڑھا رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاست ایک ایسی غلیظ دلدل بن چکی ہے کہ عام آدمی اس میں قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اگر وہ اس میں قدم رکھ بھی لے تو یا وہ خود کو تباہ کر لیتا ہے یا پھروہ کوئلے کی اس کان میں داخل ہو کر اپنا منہ بھی کالا کر لیتا ہے۔


ہمارے سیاست دان


ہمارے ہاسٹل میں سٹھیائے ہوئے ایک بابا جی رہتے تھے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "پاکستان تو ان جاگیرداروں نے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بنایا ہے جو آزادی کے بعد نہرو کے عتاب سے ڈرتے تھے، کہ وہ ان کی ساری زمینیں نہ ہتھیا لے"۔جب میں پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ابتدائی مختصر دور کے علاوہ مجھے مسند اقتدار پر یا تو وردی پوش دکھائی دیتے ہیں یا پھر وہ مٹھی بھر جاگیردار ، سرمایہ دار جنہوں نے پورے ملک کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ تب مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ کہیں وہ بابا جی ٹھیک تو نہیں کہتے تھے؟
مکمل تحریر >>

Monday 5 May 2014

گھن چکر

ہر روز صبح اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد ذہن میں خبروں کا ایک ملغوبہ سا بن جاتا ہے۔ پھر اس ملغوبے سے سوالات نمودار ہوتے ہیں۔  یہ سوالات آپس میں ٹکراتے ہیں اور پھر اتنا شور اٹھتا ہے کہ دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے۔آج اکیلا دماغ کھپانے کا دل نہیں کر رہا چنانچہ کیوں نہ اس "گھن چکر" میں شریک کر کے آپ کے دماغ کی بھی لسی بنائی جائے۔

سب سے پہلے آتے ہیں بین الاقوامی حالات کی طرف۔ اس لیے کہ ہمارا تعلق اس قوم سے ہے جسے اپنے حالات سے زیادہ دوسروں کے حالات کی ٹوہ رہتی ہے۔ اپنے ملک میں کوئی تباہی بھی آ جائے تو کوئی گل نئیں۔ گھر کا معاملہ ہے گھر والے نپٹ لیں گے۔ دوسرے ملکوں میں مکھیاں بھی مر جائیں تو اس پہ آنسو بہانا ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں آخر "سارے جہاں کا درد جو ہمارے جگر میں ہے"۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔خبریں ہیں اخوان المسلمین کے بارے میں، جن کے سینکڑوں کارکنوں کو مصر کی عدالتوں نے سزائے موت سنائی ہے۔مصر ایک اسلامی ملک ہے۔ جامعہ الازہر بھی مصر میں ہے،جس کے مفتی اعظم ایک نامور اسلامی سکالر ہیں۔دوسری طرف اخوان بھی ایک اسلامی جماعت ہے مگر الازہر کے مفتی لادینی نظام کے علمبردار سیسی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سلفی جو کہ اسلام پر کٹر پن کی حد تک یقین رکھتے ہیں انہوں نے بھی سیسی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی۔چلیں مصریوں کو چھوڑیں وہ تو ٹھہرے فرعون کے وارث۔سعودی عرب کی طرف آتے ہیں۔

سعودی عرب جہاں آل سعود کے پرچم تلے شرعیت نافذ ہے۔ ملک کے تمام قوانین شرعیت کے عین مطابق ہیں اور کہیں بھی کسی بدعت اور گناہ کا شائبہ تک نہیں۔دوسری طرف اخوان نے 80 سال کی جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل کی ۔ شرعیت کے نام لیواؤں کو اس پر خوشی کے شادیانے بجانے چاہئے تھے مگر انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔۔۔ شاید اس جمہوری جیت سے کسی کے تخت کو خطرہ لاحق تھا یا پھر وہ اس جیت کو بھی غیر اسلامی سمجھتے تھے۔ جب لادینی قوتوں نے محمد مرسی اور اخوان کا تختہ الٹا توسعودی عرب نے اربوں ڈالر کی امداد کے ساتھ ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ شاید سیسی کی آمریت جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں شرعیت کے عین مطابق ہے یا پھر۔۔۔۔۔ یہاں بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔

"لادین" مصر میں تو اخوان پر پابندی بنتی تھی مگر سعودی عرب میں اس پابندی کے کیا معنی۔کیا وہاں بھی اسلام کا داخلہ منع ہے۔ امریکہ ایک مادر پدر آزاد ملک ہے۔ ہم  جنس پرستوں کا سرپرست اعلی اور اسلام کا کھلا دشمن۔ افغانستان عراق اور پوری دنیا کے مسلمانوں کا قاتل۔۔۔۔۔لیکن ذرا رکیے: یہ قاتل امریکی افواج سعودی عرب میں کیاکر رہی ہیں۔ کھجوریں کھانے تو نہیں آئیں۔حافظ سعید صاحب فرماتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد جائز ہے تو پھر خدا نخواسطہ سعودی عرب کے خلاف بھی؟ آخر آل سعود کا شمار امریکہ کے چند بڑے اتحادیوں میں ہوتا ہے۔

باطل ، غاصب اور "لادینی"حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والی حکومتوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں علمائے دین۔ کیا وہ خود بھی باطل نہیں ہوتیں؟

"نہیں نہیں۔ایسی کوئی بات نہیں" ایک صاحب اپنے کالم میں فرما رہے ہیں " سیسی نے مرسی کو ہٹایا کیونکہ وہ اپنی پسند کا اسلام نافذ کر رہا تھا" تو کیا سیسی اب اپنی پسند کا اسلام نافذ کرے گا اسلام کی نام لیوا آل سعود کی مدد سے؟ "امریکہ فوجیں سعودی عرب میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے ہیں۔ایران کی طرف سے حملے کا خدشہ ہے" تو کیا وہ "قاتل"امریکہ جس کے خلاف جہاد جائز ہے ہمارے مقدس مقامات کی حفاظت کرے گا۔ بات کچھ  ہضم نہیں ہوتی۔اور ایرن مقامات مقدسہ پہ  حملہ کیوں کرے گا؟ وہ بھی تو ایک شریعی ملک ہے۔ 

کچھ سمجھ نہیں آرہی۔سب اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں یا سب اسلام کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ کسی کے خلاف جہاد جائز نہیں یا پھر سب کے خلاف جہاد جائز ہے۔اور یہ جہاد ہے کیا  پہلے یہ تو بتائیں؟ ہر طرف تضاد ہی تضاد ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو نہیں کہ یہ امریکہ،اخوان،سعودی عرب، سیسی،جہادی ایک ہی ہیں جو مل کر ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں؟

پس تحریر: باتیں آپس میں گڈمڈ ہونے لگی ہیں۔میرا دماغ پنکھے کی طرح گھومنے لگا ہے اورآپ کا دماغ بھی یقینا چکرا رہا ہوگا۔اس لیے اپنے ملکی حالات کا گھن چکر پھر کبھی سہی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بلاگ لکھنے اور آپ پڑھنے کے قابل نہ رہیں۔
مکمل تحریر >>

Friday 25 April 2014

حامد میر اور جلتا ہوا بلوچستان


حامد میر


حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد اٹھنے والی گرد ابھی پوری طرح بیٹھی نہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایجنسیوں نے یہ حملہ کرایا ہے کہ نہیں ان کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ کیچڑ سے کھیلیں گے تو ہا تھ تو گندے ہونگے ہی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ لوگ ان کے کردار، طریقہ عمل اور حدود و قیود کے بارے میں کھل کر بات کر رہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ بات خوش آئیند بھی ہے کیونکہ آزاد ملکوں میں نہ ہی کوئی آئین و قانون سے بالاتر ہوتا اور نہ ہی کسی کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

خیر اس حملے  کے بعد اس قدر شور اٹھا ہے کہ لوگ اصل معاملے کو بھلا ہی بیٹھے ہیں۔ حامد میر پر حملے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان میں سب سے اہم مسئلہ بلوچستان ہے۔ لوگ حامد میر کی ذات پر جتنا مرضی کیچڑ اچھالیں اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ اندھوں کی اس بستی میں دیدہ بینا رکھنے والے چند لوگوں میں سے ہے جنہوں نے نہ صرف خود بلوچستان کے حالات کا قریبی جائزہ لیا بلکہ ان کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔

آج ٹی وی چینلز پر چیخ چیخ کر حب الوطنی کا درس دیتے ہوئے لوگ  مجھے بالکل نیرو کی طرح لگتے ہیں۔  ملک جل رہا ہے اور یہ حب الوطنی اور قومی اداروں کے احترام کا درس دے کر سکھ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

بلوچستان کے آتش فشاں میں چالیس سال تک لاوہ جمع ہوتا رہا اور ہماری سویلین اور فوجی حکومتیں کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر بیٹھی رہیں۔ اب جب آتش فشاں پھٹ پڑا ہے تو سب کے ہا تھ پیر پھول چکے ہیں۔  انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا اور ایسا لگ رہا جیسے وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ جس کو چاہا لاپتہ کر دیا۔ جب دل کیا ان لاپتہ افراد کو تشدد کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینک دیں۔ خون ہمیشہ ایسی نفرت کو جنم دیتا ہے جو نسل در نسل چلتی ہے جس کا تدارک نا ممکن ہے۔ وہ بلوچوں کو لاشوں کا تحفہ دے رہے ہیں تو کیا وہ آگے سے پھول پیش کریں گے۔ اسی لیے حبیب جالب نے کہا تھا کہ 

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
 گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
 یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

حبیب جالب نے تو یہ بھی کہا تھا کہ "جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا". پاکستان ٹوٹ گیا لیکن پنجاب نہیں جاگا۔ آج بھی پاکستان علیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن پنجاب سویا ہوا ہے۔ بلوچوں کے معاملے پر پنجاب کی اکثریت کی بے حسی گہرے معنی رکھتی ہے۔

بلوچستان پاکستان کے نقشے پر

آپ مانیں نہ مانیں ہماری ان پوشیدہ قوتوں کو اپنے غیر قانونی اقدامات کے لیے پنجاب کی اکثریت کی خاموش تائید حاصل ہے۔ ادھر لہو بہہ رہا ہے تو کیا ہوا یہاں تو موٹر وے کی تعمیر ہو رہی ہے۔ میٹرو بن رہی ہے۔ ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ کل جب آگ ان لوگوں کے دروازوں تک آ پہنچے گی تب جا کے انہیں ہوش آئے گا مگر تب شاید دیر ہو چکی ہوگی۔

باقی سانحہ مشرقی پاکستان نے ثابت کر دیا تھا کہ کون غدار ہے اور کون محب الوطن۔ کس نے اپنے مفادات کی خاطر ملک کے دو ٹکرے کیے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں  اور کون وہ لوگ تھے جنہوں نے تشدد کی مخالفت کر کے ملک کو آخر دم تک بچانے کی کوششیں کیں۔ پاکستان میں جمہوریت تو اپنی پیدائش  سے پہلے ہی مر گئی تھی جب ہمارے حب الوطنی کے رکھوالوں نے (چاہے وہ سویلین ہون یا فوجی) انتخابات میں واضح اکثریت رکھنے والی جماعت کو بیلٹ سے ہارنے کے بعد بلٹ سے شکست دینے کی کوشش کی۔ اب جمہوریت کے نام پر جو بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے ایک ڈھکو سلہ ہے۔ نظر کا فریب ہے۔

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھتے ہو ئے میرا سر تو ہمیشہ شرم سے جھک جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی پڑے گا۔ شاید اسی لیے دوبارہ اس کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ ایک نیا سٹیج سج چکا ہے اور یہی پاکستان کے دشمن بھی چاہتے ہیں تا کہ وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو سکیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday 17 April 2014

لیلائے اردو کے تعاقب میں




اس بارے میں تو بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے اردو بلاگنگ کیسے شروع کی اور انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہم چونکہ لکھنے کے چکر میں اتنے نہیں پڑے اور نہ ہی کوئی ہمارے بلاگ کو گھاس ڈالتا ہے اس لئے  اس معاملے کو بعد پہ اٹھا کر رکھتے ہیں۔ ابھی ہمیں لکھنا ہے ان مشکلات کے بارے میں جو اردو بلاگ پڑھتے ہوئے ہمارے راستے میں آئیں۔ اور یہ کہ لیلائے اردو کی چاہ میں ہمیں کون کون سے پہاڑ سر کرنے پڑے۔

اکثر لوگوں کی طرح ہم نے اپنی انٹرنیٹ پر گزاری گئی زیادہ تر زندگی اسی لاعلمی میں گزار دی کہ اردو نہ ہی انٹرنیٹ پر لکھی جاتی ہے،  اور  نہ ہی ان پیج  کے علاوہ اردو لکھنے کا کوئی طریقہ اس دنیا میں وجود رکھتا ہے۔ چونکہ اردو کا کیڑا ہمارے اندر موجود تھا، اس لیے اس دور میں ہمارے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک یہ تھا کہ ہم اپنے پسندیدہ شاعروں کی نظمیں اور غزلیں ان کی کتابوں سے دیکھتے اور انہیں ان پیج پر لکھ کر ڈیزائن وغیرہ بنانے کی کوشش کرتے۔ اس کے علاوہ اپنےفارغ البال عاشق دوستوں کی "محبت بھری شاعری" ٹائپ کرنے کا ٹھیکا بھی ہمارے پاس تھا جس کے بدلے اکثر ہماری تواضع سموسوں سے کی جاتی۔

اردو پوائینٹ  ہماری  زندگی کی پہلی اردو ویب سائٹ  جو ہم نے دریافت کی تھی اور اس وقت ہم ویسی  ہی خوشی محسوس کر رہے تھے جیسی کولمبس نے امریکہ دریافت کرتے وقت محسوس کی ہوگی۔ گو وہ تصویری اردووالی ویب سائٹ  تھی لیکن بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔ ہم نے یونی کوڈ اردو کہیں دیکھی ہوتی تو ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ تصویری اردو ہے  نہ کہ وہ "اصلی والی" ٹیکسٹ اردو۔

اس کے بعد ہمیں اردو سیا رہ دریافت کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگا  اور اس  ایک سال میں ہم نے خوب ٹھوکریں کھائیں۔ کبھی نت نئے فورم جائن کیے تو کبھی رومن اردو والی ویب سائیٹس کو ہی اصلی اردو والی سائیٹس سمجھ کر دھوکے کھائے جیسے یہاں کچھ لوگ ہم جیسے پردیسیوں کو اصلی حافظ والے سوہن حلوے کا جھانسا دے کر نقلی والا پکڑا دیتے ہیں۔ اردو سیارہ تک پہنچتے پہنچتے ہم اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ ایک بار تو ہم نے انٹرنیٹ پر اردو  ڈھونڈنے کے اپنے مشن کو پس پشت ڈال کر انگریزی سیکھنے کا مسمم ارادہ کر لیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے کچھ زندہ دل دوستوں کا کہ جنہوں نے ہمیں یہ کہہ کر  اس ارادے سے باز رکھا کہ بیٹا اردو تو تجھے آتی نہیں اور چلا انگریزی سیکھنے۔ یہ نہ ہو انگریزی سیکھتے سیکھتے اردو تو اردو اپنی "پہاڑی " سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو۔


خیر اتنے میں ہمیں بی بی سی اردو بھی مل گئی اور ساتھ ساتھ  ہم نے اردو سیارہ پربھی  آنا جانا شروع کر دیا ۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ ہمیں پڑھنے میں اتنی مشکل پیش آتی ہے یہ لوگ لکھتے کیسے ہونگے۔ در اصل ہم فونٹ شونٹ نام کی کسی بھی چیز سے نا واقف تھے۔ اس لیے ایک عرصے تک نہ صرف سیارہ بلکہ مختلف اردو بلاگز بھی اس عربی نما اردو میں پڑھتے رہے۔ وہ تو بھلا ہو اپنے محمد بلال بھائی کا  کہ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے فونٹ اور اردو کی بورڈ نامی چیزوں سے آشنا کرایا۔مگر اس دور میں اردو لکھنا اتنا مشکل ہوتا تھا کہ لوگ رومن لکھنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ اوپر سے ہماری ونڈوز ایکس پی ہر روز "اڑ" جایا کرتی تھی اور دوبارہ اردو سپورٹ انسٹال کرنا ونڈوز انسٹال کرنے سے زیادہ مشکل کام لگتا تھا۔ پھر 'پاک اردو انسٹالر' کی "ایجاد" کے بعد یہ راہیں بھی آسان ہوتی چلیں گئیں۔

اب تو خیرچار سال سوچنے کے بعد ہم نے اپنا ذاتی اردو بلاگ بنانے کی گستاخی بھی کر ڈالی ہے جس کے لئے ہمٰیں یقین ہے کہ اردو بلاگنگ کے ارباب اقتدار و اختیار ہمیں کبھی معاف کرنے کی زحمت نہیں کریں گے۔ آگے ہم بھی ڈھیٹ ہیں، اتنی آسانی سے جان نہیں چھوڑنے والے۔
مکمل تحریر >>

Sunday 13 April 2014

زندہ رہنا ضروری ہے

یہ دو  دن پہلے کی بات ہے۔ میں اپنے روم میٹ کے ساتھ سرکلر روڈ پر مٹر گشت کر رہا تھا جب فون پہ یہ اندوہ ناک خبر  ملی کہ ہمارے ایک نہایت قریبی سینئر نے ٹرین کے آگے آ کر خودکشی کر لی ہے۔ایک لمحے کے لئے میری سانسیں ہی رک گئیں۔  ہم بھاگتے ہوئے ہسپتال کی  ایمرجنسی میں پہنچے جہاں ان کی لاش دیکھ کر ہمارے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔کل تک ہم جس شخص کو ہنستا کھیلتا دیکھ رہے  تھے آج وہ ہمارے سامنے  بے حس و حرکت پڑا تھا۔بہت کم لوگ اتنے ہنس مکھ اور اچھے  اخلاق والے ہوتے ہیں۔ یقین نہیں آتا ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کہیں سے وہ نکل آئیں گے اور اپنے  مخصوص انداز میں کہیں گے کہ 'بچے کیسے ہو'۔  مگر وہ لب اب خاموش تھے ۔ وہ ہاتھ جنہوں نے کچھ دن پہلے فٹ بال ٹورنامنٹ جیتنے پر بڑے فخر سے ٹرافی اٹھائی تھی   بے جان پڑے  تھے اور وہ مسکراہٹ جسے دیکھ کر اداس چہرے بھی کھل اٹھتے معدوم ہو چکی تھی۔

کاش انہوں نے ایک بار بھی یہ سوچا ہوتا کہ
زندگی کیا ہے،  جاننے کے لئے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے

آج ہر طرف سوگ کی فضا ہے۔ سب فیس بک پر ان کی یاد میں دھرا دھر پوسٹیں کر رہے ہیں۔ ان کی تصویریں اپلوڈ کر رہے ہیں۔کچھ دن بعد ایک نیا سورج نکلے گا اور لوگ سب کچھ بھول بھال کر اپنے کاموں میں لگ جائیں گے۔ کیونکہ ایک انسانی جان کی تو کوئی قیمت ہی  نہیں۔ نہ ہی یہ خودکشی کا پہلا واقعہ ہے نہ ہی اس بات کا کوئی امکا ن ہے کہ یہ آخری ثابت ہو گا۔ دو سال پہلے میرے ایک کلاس فیلو نے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کا مسکراتا چہرہ آج بھی میرے سامنے جگمگاتا ہے۔مرنے والے کو سب یاد کر تے ہیں مگر کوئی  ان اسباب پر غور نہیں کرتا جن کی وجہ سے اچھا  خاصا بندہ ایسے مشکل فیصلے لینے پر  مجبور ہو جاتا ہے۔ہر کوئی یہ راگ الاپتا ہے کہ خودکشی حرام موت ہے لیکن کیا وہ معاشرہ حلالی ہے جو اچھے بھلے انسان کو مایوسی کے اس مقام تک لے جاتا ہے جہاں اس صرف ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے۔ یعنی موت۔



کہتے ہیں کہ کسی معاشرے کے بارے  میں آپ اگر معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ترقی کی طرف جا رہا ہے کہ تنزلی کی طرف ، تو وہاں خودکشیوں کی تعداد کو دیکھیں۔ آپ پاکستان کا کوئی بھی اخبار اٹھا لیجئے۔ کہیں کوئی چار بچوں کی ماں بچوں سمیت نہر میں کود رہی ہوگی۔ کہیں کوئی طالبعلم اس کھوکھلے تعلیمی نظام کی بھینٹ چڑھ رہا ہوگا۔ کہیں کوئی لڑکی پسند کی شادی نہ ہونے پر پل سے نیچے کود رہی ہو گی اور   کہیں کوئی مزدور یا کسان اس جاگیردارانہ نظام کے منہ پر طمانچہ رسید  کر کے اگلی دنیا کے لئے رخت سفر باندھ رہا ہوگا۔ خودکشیوں کا یہ  بڑھتا ہوا سلسلہ ہماری 'ترقی' کی زندہ مثال ہے۔ شاید یہ وہی ترقی ہے جس کے بلند وبانگ دعوے ہمارے حکمران کرتے ہیں۔

اسی لئے جب کوئی شخص حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود اپنی جان لیتا ہے تو وہ خود اکیلا اپنی موت کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ اس جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ حالات معاشرے کے ہی پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟۔

مکمل تحریر >>

Monday 7 April 2014

مسافر خلاؤں میں



انٹر نیشنل سپیس سٹیشن 
انٹر نیشنل سپیس سٹیشن

خلا بازی کا شوق ہمیں بچپن سے رہا ہے۔ اس وقت سے جب پی ٹی وی پر سپیس 2000 نامی ڈرامہ لگا کرتاتھا۔ اتنا انتظار ہم آج کل بجلی آنے کا نہیں کرتے جتنا ہم سارا ہفتہ سپیس 2000 کا کرتے تھے۔اس وقت ہماری زندگی کا ایک ہی مشن تھا۔خلا کی وسعتوں کو کھنگالنا اور عجیب و غریب شکل والی غیر زمینی مخلوق سے جا کر جنگ کرنا۔رات کو ہمارے خوابوں میں لمبے سیاہ جسم اور انگاروں کی طرح چمکتی سرخ آنکھوں والی مریخی مخلوق آتی ۔اور دن کے اجالے میں جاگتی آنکھوں کے خواب دیکھنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہمارا یہ خلا نوردی کا شوق اس وقت ٹھنڈا پڑا جب ہماری نظر سے ادا جعفری کا یہ شعر گزرا کہ

ویرانیاں دلوں کی کچھ کم نہ تھیں ادا
کیا ڈھوندنے گئے مسافر خلاؤں میں

تب سے ہم دلوں کی ویرانیوں کو جاننے کی جستجو میں ہیں( غلط مت سمجھیے گا۔اس سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا اور انسانی جسم ،جس میں دل بھی آتا ہے، کی جستجو میں لگ گئے:ڈ)۔ خیر اس کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ ہم اپنے خلا نودی کے شوق کو بھول گئے ہیں۔ اسی لئے ہم اپنی بلاگنگ کا "افتتاح" انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کے بارے لکھتے ہوئے کر رہے ہیں۔

آپ نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی آسکر انعام یافتہ فلمGRAVITY دیکھی ہوگی جس میں انسان کی خلا میں جدوجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی فلم کے کئی مناظر میں انسانی ترقی کے شاہکار 'انٹرنیشنل سپیس سٹیشن ' یا ISSکو بھی دکھایا گیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ISSآخر ہے کیا۔

انٹرنیشنل سپیس سٹیشن خلا میں معلق ایک ایسی قسم کا جدید ترین مصنوعی سیارہ ہے جس میں انسانوں کا مستقل قیام ممکن ہے ۔یہ پہلی بار 1998 کو خلا میں چھوڑا گیا۔ اس کا انتظام مشترکہ طور پر امریکا اور روس کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ اس میں ایک خاص قسم کے خلائی ماحول میں سائنس کے مختلف شعبہ جات سے متعلق تجربات کیے جاتے ہیں۔ سپیسسٹیشن خلانوردوں کو اس چیز کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ خلا میں رہ کر کام کر سکیں اور نت نئے تجربات کر سکیں۔
  سپیس سٹیشن کے اندر کا ایک منظر

سپیس سٹیشن کا مدار زمین سے 400 کلومیٹر بلندی پہ واقع ہے یعنی یہ زمیں سے 400 کلومیٹر بلندی پر رہ کر زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ اپنی توانائی سورج سے بڑے سولر پینلز کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اس کی تعمیر اور دیکھ بھال پر اب تک ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔ خلادانوں کو سپیس سٹیشن پر بھیجنے اور پھر واپسی کے لیے سپیس شٹلز یا خلائی گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی قیمت ایک ارب ڈالر سے کم نہیں ہوتی۔ یوں یہ انسانی تاریخ کا سب سے مہنگا سائنسی منصوبہ ہے۔

اس سے پہلے بھی مختلف ممالک نے خلا میں اپنے سپیس سٹیشن بھیجے تھے جیسا کہ امریکہ کا 'سکائی لیب'sky lab اور روس کا 'میرmir' مگرISSکی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں بہت سےممالک کا ہاتھ ہے۔


سپیس سٹیشن کے اندر کا ایک منظر

سپیس سٹیشن پر دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے اور مختلف زبانیں بولنے والے خلادان قیام کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد امریکی اور روسی افراد کی ہے۔اس کے علاوہ جاپان، کنیڈا اور مختلف یورپی ممالک بھی اس پر اپنا حق رکھتے ہیں۔ سپیس سٹیشن میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والوں میں روس سے تعلق رکھنے والے' سرجئی کریکالیو' کا نام سر فہرست ہے جنہوں نےخلا میں 803 دن گزار کر عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔

ایک دور میں ہم یہ سب سائنس فکشن فلموں میں دیکھا کرتے تھے لیکن انسان کی ذہانت اور محنت نے یسے بھی ممکن کر دکھایا ہے۔سپیس سٹیشن انسانی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم علم اور جدوجہد کو مشعل راہ بنا لیں تو پھر ہمارے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔
مکمل تحریر >>