Pages

Wednesday 21 May 2014

جیو کی بندش کے بعد کچھ کہانیاں

(1) نیا مشن 

"مشن مکمل ہوا سر۔۔۔" نامعلوم لباس میں ملبوس ایک نامعلوم شحص نے فون پر اپنے افسر سے کہا۔
فون بندکر کے وہ دھیرے سے اٹھا اور ٹی وی لاؤنج میں آگیا اور اس کے بھاری بوٹوں کی دھمک سے پورا  گھرگونج اٹھا۔اس نے ریموٹ اپنے ہاتھوں میں لیا اور چینل بدل بدل کر دیکھنے لگا کہ کہیں اور تو کوئی چینل "قابلِ اعتراض" مواد تو نہیں دکھا رہا۔۔۔۔۔پھر یکدم اس کا ہاتھ رک گیا اور اس کی نظریں ایک اور چینل پر جم گئیں!!! ایک نیا مشن اس کے سامنے تھا۔۔


(2) مبارک ہو

پاکستان سے باہر ایک ملک میں مقیم ایک بہت بڑے انقلابی عالم اپنے جہازی سائز کمرے میں بیٹھے تھے ۔ نہ صرف کمرہ ان کے معتقدین سے بھرا ہوا تھا بلکہ ان کی تنظیم کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ (جو کہ سب سے بڑا شعبہ تھا) کی وجہ سے پاکستان کے تقریبا ہر شہر سے کارکن سکائپ کے ذریعے اس بابرکت محفل سے جڑے ہوئے تھے۔ حضرت ایک خاص فون کے انتظار میں تھے۔۔۔۔ گو وہ جو خبر سننا چاہ تھے نہ صرف ٹی وی پر آگئی تھی بلکہ اس  سے  پہلے ہی ان کے سوشل میڈیا کے مجاہد انہیں اس عظیم معرکے میں فتح کی خوش خبری دے چکے تھے۔۔۔۔۔ مگر اصل چیز تو وہ فون کال تھی جس کا انہیں انتظار تھا۔۔۔

کمرے میں ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا اتنا ہی سب کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا( کہ  کہیں فون کرنے والوں کی  ڈائری سے حضرت صاحب کا فون نمبر تو نہیں کاٹ دیا گیا) پھر یکدم ان کے فون پہ پاکستان کا قومی ترانہ (موسیقی کے ساتھ) بجا اور نہ صرف حضرت صاحب کی جان میں جان آئی بلکہ متعقدین  نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

پھر وہ موبائل کان سے لگا کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ جسم تو ان کا یہیں تھا مگر روح کہیں دور  راولپنڈی اسلام آباد کے گرد بھٹک رہی تھی۔جب انہوں نے فون کان سے ہٹایا تو ان کے چہرے سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ پھر وہ یکدم بول پڑے"مبارک ہو۔۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔ پیمرا نے آج  ایک فتنے کا خاتمہ کر دیا ہے۔۔۔انقلاب کی منزل اب دور نہیں۔۔-پرانے نظام کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔۔۔۔بس اب انقلاب آ رہا ہےانقلاب۔۔۔۔"

حضرت کا یہ کہنا تھا کہ ان کے کارکن سجدے میں گر گئے۔ ان کی آنکھوں میں شکر کے آنسو تھے۔۔۔۔جبکہ حضرت صوفے پر اور پھیل کر بیٹھ گئے اور اگلی فون کال کا انتظار کرنے لگے۔


(3) کھیل اور کھلاڑی

کھلاڑی نما سیاستدان  (یا سیاستدان نما کھلاڑی) نے   ایک ٹی وی چینل بند کرا کے گویا اپنے کیریئر کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔اب راہ کا اصل پتھر تو ہٹ گیا ہے اس لیے منزل زیادہ دور نہیں ۔ ۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔ابھی کل ہی مودی جی نے الیکشن جیتا ہے۔ انڈیا کے اگلے وزٹ میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرنا پڑے گا۔۔۔۔آخر پتا تو چلے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کی موجودگی میں  اتنی بڑی کامیابی انہوں نے حاصل کی بھی تو کی کیسے۔۔۔۔۔ساتھ امن کی آشا والے دوستوں نے اب لفٹ تو نہیں کرانی۔ کچھ نئے دوست تو ڈھونڈنے پڑیں گے۔۔۔میں نے کشمیر پہ جو بیان دیا تھا  انڈیا میں اس پہ تو مودی جی بہت خوش ہونگے۔۔۔اور پاکستان میں بھی ویسے بھی اب بس اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینا ہے۔۔۔۔ خیر جن  کے پاس بلڈوزر ہیں وہ تو ساتھ ہی ہیں مگر عوام کو دکھانے کیلئے دھکاتو دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ دیوار گرانے کا اصل کام تو بلڈوزر کا ہی ہوتا ہے۔

یہی کچھ سوچتے سوچتے ہو ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں اس کی جماعت کے لیڈر (یا ٹیم کے کھلاڑی) بیٹھے تھے۔ کچھ  چہرے روشن تھے جبکہ کچھ چہروں پر اداسی کی رمق تھی۔

"حضور "ایک شحص نے کھڑے ہو کر کہا "کہیں ہم سے نادانستگی میں کچھ غلط تو نہیں ہو گیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جس پچ پر کھیل رہے ہیں اسی کے ایک حصے کو  اکھاڑ دیا ہے۔۔۔کل کو اگر باہر سے آ کر کسی نے پوری پچ کا بیڑا غرق کر دیا تو!!!!" اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
"کوئی بات نہیں " کھلاڑی نے جواب دیا"ہم ایک نئی پچ بنا لیں گے"۔
اس بات پر سب نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے اور کھلاڑی کا سینہ فخر سے تن گیا۔۔۔پھر وہ سب کھلاڑی کی ذہنی اپج، گہری نظر اور بال کو ہمیشہ نشانے پر پھینکنے کی  خاصیت کی تعریف کرنے لگے۔۔

"مجھے لگتا ہے کہ کھلاڑی نے اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑی کو آؤٹ کر دیا ہے" کمرے میں  موجود ایک شحص نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی۔
"یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھلاڑی اندر سے دوسری ٹیم کہ ساتھ مل گیا ہو"
"اور یہ بھی ممکن ہے کہ کھلاڑی ہمیشہ سے دوسری ٹیم کا حصہ رہا ہو" دونوں بے یقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
باہر سے اچانک شور وغل سنائی دیا اور کھلاڑی اٹھ کر بالکونی پر آ گیا۔

گھر کے باہر نوجوانوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لڑکیاں تھیں جو کھلاڑی کو دیکھنے آئی تھیں۔۔۔۔کچھ لڑکے تھے جو ان لڑکیوں کو دیکھنے آئے تھے۔۔۔اور باقی سب وہی لوگ تھے جو کسی بھی جگہ ہجوم دیکھ کر تماشہ دیکھنے جمع ہو جاتے ہیں۔ ہاتھ ہلاتے ہلاتے کھلاڑی کو وہ منظر یاد آ گیا جب وہ ایک بڑی سی ٹرافی ہاتھ میں تھامے یونہی ہاتھ ہلا رہا تھا اور لوگ اسےکسی بادشاہ کی طرح گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ اب اس کو بلڈوزر سے دیوار کے گرنے اور پھر مودی جی کی طرح اپنی عالی شان فتح کا انتظار تھا۔


(4) برقعہ

مولوی صاحب (جو کہ ایک  غیر سیاسی مذہبی جماعت کے رکن بھی تھے)اپنے محلے کے عمائدین سے محو گفتگو تھے۔۔۔کہ اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قوم کی ایک دجالی فتنے سے جان چھوٹی۔۔۔۔جلد ہی سب یہودیوں اور ہندوؤں کے ایجنٹوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔۔۔۔ اب انشاءاللہ محلے کےسب لڑکے سدھر جائیں گے اور لڑکیوں پر جملے کسنا چھوڑ دیں گے۔۔۔اور لڑکیاں ساری ساری رات پیکج لگا کر باتیں کرنا بھول جائیں گی۔۔۔لوگوں کے اخلاق بہتر ہونگے۔۔۔نہ صرف مسجد میں ان کی آمد بڑھے گی بلکہ مجھے چندہ بھی زیادہ ملے گا۔۔۔گھروں میں یہ ناچ گانا بھی بند ہو جائے گا۔۔۔۔اور تو اور پردے کا چلن بھی بڑھے گا۔۔۔۔مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ سب عورتیں برقع پہننا شروع کر دیں۔۔۔۔یہ خیال آنا تھا کہ مولوی صاحب یکدم پریشان ہو گئے۔


(5)کافر کافر۔۔۔۔

ایک فرقہ پرست  تنظیم کے سربراہ اپنے کارکنوں سے :اللہ کے فضل و کرم سے آخر کار ہم نے اپنی فوج پر انگلیاں اٹھانے والے ہر ہاتھ کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور ہر وہ آنکھ نوچ ڈالی ہے جس نے ہمارے ملک کی نظریاتی سرحدوں پر گندی نگاہ ڈالی تھی۔۔۔آئندہ بھی جو ایسی مذموم حرکت کرے گا اس کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہے گا۔۔۔مگر میرے بھائیو! تم نے اپنے اصل مشن کو نہیں بھولنا۔۔۔۔اب ذرا زور سے ایک نعرہ  لگاؤ کہ۔۔۔۔"کافر کافر شیعہ۔۔۔۔۔"


(6)بند ہو گیا ہے

"سنا ہے جیو بند ہو گیا ہے "ایک مزدور نے دوسرے مزدور سے کہا۔
"جیو؟ یہ جیو کیا ہے"
"تمارے گھر جیو نہیں آتا۔۔۔ ویسے تو اب ہمارے گھر بھی نہیں آتا۔۔۔ مگر پہلے تو آتا ہو گا ناں؟"
"ہمارے گھر تو کوئی نہیں آتا۔۔بس کونسلر صاحب الیکشن سے پہلے ایک بار درشن دکھاتے تھے وہ بھی اب  نظر نہیں آتے۔۔"
"ارے بیوقوف ٹی وی چینل کی بات کر رہا ہوں"
"ہمارے گھر تو ٹی وی نہیں ہے"
"ٹی وی تو میرے گھر بھی نہیں ہے وہ تو میں ایویں شو مار رہا تھا۔۔بس کبھی کبھی چچا اشرف کے کھوکھے پر دیکھ لیتا تھا--۔۔وہ بتا رہا تھا کہ جیو بند ہو گیا ہے۔"
"چلو چلو کام پر لگو" پاس سے گزرتے ہوئے ٹھیکیدار بولا"ورنہ میں نے تمارا نان نفقہ بند کر دینا ہے۔بڑے آئے۔۔۔۔۔۔" انہوں نے اپنے اپنے بیلچے اٹھائے اور ریت کے ڈھیر کے اندر گھس گئے۔

(7) کباب کی پلیٹ

چینل بند ہونے کی خبر سب سے آخر میں اس شحص تک پہنچی جس کے ذمے اس ملک کا نظام چلانے کی ذمہ داری تھی۔۔وہ رات کا کھانا کھا رہا تھا جب اس کی بیوی نے اسے یہ خبر دی۔
"اچھا تو یہ بات ہے۔"اس نے سر اٹھا کر کہا " میں نے تو کوئی حکم جاری نہیں کیا۔۔۔ پھر چینل کی بندش کا  یہ حکم آخر کہاں سے جاری ہوا ہے۔"
"وہاں سے جہاں سے آپ کی جلاوطنی کا حکم  جاری ہوا تھا۔۔۔۔"
"اچھا"اس نے ایک گہرا سانس لیا "مجھے وہ کباب کی پلیٹ تو اٹھا کر دو ذرا!!!!"


نوٹ: ان کہانیوں کے تمام حالات تو فرضی ہیں مگر کردار سو فیصد اصلی ہیں ۔۔۔اس لئے کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ نہیں ہو گی۔


مکمل تحریر >>

Thursday 15 May 2014

عمران خان، دھاندلی اور یہ فرسودہ نظام

عمران خان کے جلسےکے بعد سے اب تک میں حیرت زدہ ہوں کہ وہ جس خود ساختہ دنیا میں رہتے ہیں ، وہ ان کی اپنی تخلیق کردہ ہے یا پھران کےاردگرد موجود مشیروں اور ہاں میں ہاں ملانے والے چمچوں  کی مدد سے بنائی   گئی ہے۔عمران خان کا سارا زور دھاندلی پہ ہے۔ ان کے مطابق پورے ملک میں ایک منظم طریقے سے دھاندلی کر کے ان کی یقینی فتح کو شکست میں بدلا گیا۔ خیر اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس دعوے میں کتنی حقیقت  ہے، پھر بھی تصوراتی طور پر ہی سہی ایک غیر جانبدارمنظرنامہ پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نئے الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور یہ الیکشن بجائے فرسودہ پرچیوں والے  نظام کے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کچھ لوگ سو  سو ووٹ ڈال  دیں اور کچھ بیچاروں کو ووٹ دینے کا موقع ہی نہ ملے۔ ووٹنگ لسٹوں سے بوگس ووٹ بھی نکال دیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔اور تو اور چیف الیکشن کمشنر بھی ان کی مرضی کا تعینات کر دیا گیا ہے اور ریٹرننگ آفیسر تو اللہ میاں کی گائے ہیں۔۔۔سو دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ملک میں بھی ان کی لہر چل پڑی ہے۔ ہر دوسرے گھرپر پی ٹی آئی کا پرچم لہرا رہا ہے۔پھر 11 مئی 2013  جیسی ہی ایک صبح منصہء شہود پر آ گئی ہے۔ لوگوں میں جوش و خروش کا عالم ہے۔ٹرن آؤٹ پہلے سے بھی زیادہ ہے اور اس مرتبہ جیو نے بجائے نواز شریف کے ان کی فاتحانہ تقریر نشر کی ہے۔۔۔۔خان صاحب کیا سوچتے ہیں۔ کیا وہ پھر بھی جیت پائیں گے؟

پہلے ان کے پسندیدہ خیبر پختونخواہ میں چلتے جہاں وہ ضمنی الیکشن میں پشاور کی اہم ترین سیٹ بھی کھو بیٹھے  تھے۔اس صوبے میں ایک طرف مذہب کے نام لیواؤں کی گرفت مضبوط ہے تو دوسری طرف پشتون نیشنلزم کے ٹھیکیدار بھی اتنے کمزور نہیں ہوئے۔ وہاں سے عمران خان پہلے سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکتے۔

تھوڑا  نیچے پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ پوٹھوہار اور دارالحکومت فتح کرنے میں انہیں پہلے سے زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اور جی ٹی روڈ کے رستے لاہور تک وہ محنت کریں تو انہیں بہت بڑی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے۔لیکن پاکستان کیا لاہور تک آ کے ختم ہو جاتا ہے؟

لاہور سے نیچے چلیں تو پھر وہ علاقے آتےہیں جہاں جاگیرداروں کی گرفت بے حد مضبوط ہے جو صدیوں سے یہاں کے فرمانروا ہیں۔۔۔۔ یہاں کے اکثر لوگ ووٹ تو ڈالتے ہیں مگر اپنی مرضی سے نہیں، نسل در نسل چلے آنے والے چہروں پر مہر تصدیق ثبت کرنا  ہی ان کے نزدیک جمہوریت ہے ۔ جنوبی پنجاب میں عمران خان کے  لئے کامیابی حاصل کرنے امکانات بہت کم ہیں۔یہاں کا نظام ہی اتنا فرسودہ ہے کہ نئے لوگوں کا سامنے آنا ناممکن ہے۔

دیہی سندھ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔۔۔۔ وہی جاگیردار لوگوں کی قسمت کے مالک و مختار ہیں جو اپنے علاقوں میں اس لئے ترقی نہیں دیکھنا چاہتے کہ کہیں لوگ با شعور ہو کر اپنے حقوق نہ مانگ لیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کی طرف آتے ہیں جو مختلف مافیاز کے شکنجے میں ہے اور وہاں سے جیتنا شیر کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہے۔ شہری سندھ میں پوری جان لگانے کے بعد بھی ان کی سیٹوں کی تعداد  دوہرے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔اب رہا بلوچستان تو وہ ہمارے کھاتے سے باہر ہے۔ عمران خان کیا وہ تو ہمارے کسی ادارے یا  سیاستدان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔۔۔۔تو پھر کہاں گئی وہ عظیم الشان کامیابی جسے نواز شریف کی دھاندلی نے ہائی جیک کر لیا۔۔جتنی دھاندلی اس الیکشن میں ہوئی ہے وہ نہ بھی ہوتی تب بھی عمران کی سیٹیں 50 کے ہندسے سے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔

ڈی چوک میں عمران خان کی ریلی کا ایک منظر


عمران خان اور ان کے انقلابیوں کو ابھی یہ سمجھنے میں بہت دیر لگے گی کہ اس ملک میں رائج یہ غاصبانہ نظام ہی ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں حقیقی جمہوریت  پنپ ہی نہیں سکتی۔ جمہوریت ہو یا آمریت، یہی جاگیردار یا سرمایہ دار ہمارے مالک و مختار بنے ہوتے ہیں۔ جب تک ان سے نجات حاصل نہیں ہو تی یہ احتجاج اور یہ سب چیزیں بے سود ہیں۔

عمران خان کو بجائے دھاندلی کا شور مچانے کے ان حقیقی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے وہ اپنی ہوا چلنے کے باوجود شکست سے ہمکنار ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اس غاصبانہ نظام میں وہ تب ہی الیکشن جیت سکتے ہیں جب وہ مکمل طور پر اس نظام کا حصہ بن جائیں۔۔۔اور ان کی جماعت پر بھی وہی غاصب لوگ قابض ہو جائیں۔۔۔ کچھ لوگ تو کہتے بھی ہیں کہ پی ٹی آئی بھی ان روایتی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے جا رہی ہے جن کا موٹو اقتدار پر قابض ہونے بعد اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔

خیر یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن کبھی کبھی طاہر القادری کی اس بات پہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اس نظام کے تحت دس الیکشن بھی ہو جائیں تب بھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ وہی جانے پہچانے چہرے نام بدل کر مسند اقتدار پر فائز ہونگے اور تبدیلی چاہنے والے لوگ ہمیشہ کی طرح منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔۔۔۔
مکمل تحریر >>

Friday 9 May 2014

ہماری سیاست: کل اور آج

ایک زمانہ تھا کہ سیاست کو ایک راہِ پر خار سمجھا جاتا تھا۔ہر ایرا غیرا سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا اور لیڈر ہمیشہ وہ شخص ہوتا تھا جو صبر و استقامت کا پیکر ہو۔ہر کسی میں یہ بھاری پتھر اٹھانے کی سکت نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تب لوگ سیاست کا نام سن کر ناک بوں  نہیں چڑھاتے تھے بلکہ سیاست کو عوامی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھاکالی بھیڑیں موجود تھیں لیکن پیش منظر پر نیک نام لوگ تھے۔

 یہ پاکستان بنے سے پہلے کی باتیں ہیں جب زیادہ تر جاگیردار اور سرمایہ دار انگریز سرکار کے پاؤں چاٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ اور سیاست کے میدان کارزار میں مسلمانوں کمان پڑھے لکھے، بلند حوصلہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔۔۔ وہ میدان سیاست جس میں مولانا آزاد، محمد علی جوہر، جناح،حسرت جیسےلوگ ہوں جن پر ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے، اس کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ان میں سے اکثر نے قابض حکمرانوں کے ہاتھوں طرح طرح کے مصائب سہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگرمسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

محمد علی جناح اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر 1940 میں(تصویر: وکی پیڈیا)


مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں مصائب کسی اور نے اٹھائے اور آزادی کے بعد بنا بنایا ملک انہیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جھولی میں آ گرا ۔ یا پھر ان سپہ سالاروں کے ہاتھوں میں کچھ عرصہ پہلے انگریز سرکار سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔۔۔۔۔یعنی دکھ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔

آج ملک کے ہر شعبے میں ایک مخصوص طبقے کا راج ہے۔ فوج ملک کے اندر ایک اور ملک بنائے بیٹھی ہے۔سیاست چند  پیشہ ور جغادریوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صدیوں ہمارا استحصال کیا ہے، اور آج بھی ملک کی زمام اقتدار انھی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ ملک کو اپنے سابق آقاؤں کی طرز پر چلا رہے ہیں جن کے اقتدار کو جلا بخشنے میں ان کے آباء و اجداد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

جن لوگوں سے ہندوستان نے تقسیم  کے بعد نجات حاصل کر لی تھی  ہم مذہب ، حب الوطنی اور آزادی کے نام پر آج بھی ان کو اپنا خون پلا کر اور پروان چڑھا رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاست ایک ایسی غلیظ دلدل بن چکی ہے کہ عام آدمی اس میں قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اگر وہ اس میں قدم رکھ بھی لے تو یا وہ خود کو تباہ کر لیتا ہے یا پھروہ کوئلے کی اس کان میں داخل ہو کر اپنا منہ بھی کالا کر لیتا ہے۔


ہمارے سیاست دان


ہمارے ہاسٹل میں سٹھیائے ہوئے ایک بابا جی رہتے تھے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "پاکستان تو ان جاگیرداروں نے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بنایا ہے جو آزادی کے بعد نہرو کے عتاب سے ڈرتے تھے، کہ وہ ان کی ساری زمینیں نہ ہتھیا لے"۔جب میں پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ابتدائی مختصر دور کے علاوہ مجھے مسند اقتدار پر یا تو وردی پوش دکھائی دیتے ہیں یا پھر وہ مٹھی بھر جاگیردار ، سرمایہ دار جنہوں نے پورے ملک کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ تب مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ کہیں وہ بابا جی ٹھیک تو نہیں کہتے تھے؟
مکمل تحریر >>

Monday 5 May 2014

گھن چکر

ہر روز صبح اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد ذہن میں خبروں کا ایک ملغوبہ سا بن جاتا ہے۔ پھر اس ملغوبے سے سوالات نمودار ہوتے ہیں۔  یہ سوالات آپس میں ٹکراتے ہیں اور پھر اتنا شور اٹھتا ہے کہ دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے۔آج اکیلا دماغ کھپانے کا دل نہیں کر رہا چنانچہ کیوں نہ اس "گھن چکر" میں شریک کر کے آپ کے دماغ کی بھی لسی بنائی جائے۔

سب سے پہلے آتے ہیں بین الاقوامی حالات کی طرف۔ اس لیے کہ ہمارا تعلق اس قوم سے ہے جسے اپنے حالات سے زیادہ دوسروں کے حالات کی ٹوہ رہتی ہے۔ اپنے ملک میں کوئی تباہی بھی آ جائے تو کوئی گل نئیں۔ گھر کا معاملہ ہے گھر والے نپٹ لیں گے۔ دوسرے ملکوں میں مکھیاں بھی مر جائیں تو اس پہ آنسو بہانا ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں آخر "سارے جہاں کا درد جو ہمارے جگر میں ہے"۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔خبریں ہیں اخوان المسلمین کے بارے میں، جن کے سینکڑوں کارکنوں کو مصر کی عدالتوں نے سزائے موت سنائی ہے۔مصر ایک اسلامی ملک ہے۔ جامعہ الازہر بھی مصر میں ہے،جس کے مفتی اعظم ایک نامور اسلامی سکالر ہیں۔دوسری طرف اخوان بھی ایک اسلامی جماعت ہے مگر الازہر کے مفتی لادینی نظام کے علمبردار سیسی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سلفی جو کہ اسلام پر کٹر پن کی حد تک یقین رکھتے ہیں انہوں نے بھی سیسی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی۔چلیں مصریوں کو چھوڑیں وہ تو ٹھہرے فرعون کے وارث۔سعودی عرب کی طرف آتے ہیں۔

سعودی عرب جہاں آل سعود کے پرچم تلے شرعیت نافذ ہے۔ ملک کے تمام قوانین شرعیت کے عین مطابق ہیں اور کہیں بھی کسی بدعت اور گناہ کا شائبہ تک نہیں۔دوسری طرف اخوان نے 80 سال کی جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل کی ۔ شرعیت کے نام لیواؤں کو اس پر خوشی کے شادیانے بجانے چاہئے تھے مگر انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔۔۔ شاید اس جمہوری جیت سے کسی کے تخت کو خطرہ لاحق تھا یا پھر وہ اس جیت کو بھی غیر اسلامی سمجھتے تھے۔ جب لادینی قوتوں نے محمد مرسی اور اخوان کا تختہ الٹا توسعودی عرب نے اربوں ڈالر کی امداد کے ساتھ ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ شاید سیسی کی آمریت جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں شرعیت کے عین مطابق ہے یا پھر۔۔۔۔۔ یہاں بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔

"لادین" مصر میں تو اخوان پر پابندی بنتی تھی مگر سعودی عرب میں اس پابندی کے کیا معنی۔کیا وہاں بھی اسلام کا داخلہ منع ہے۔ امریکہ ایک مادر پدر آزاد ملک ہے۔ ہم  جنس پرستوں کا سرپرست اعلی اور اسلام کا کھلا دشمن۔ افغانستان عراق اور پوری دنیا کے مسلمانوں کا قاتل۔۔۔۔۔لیکن ذرا رکیے: یہ قاتل امریکی افواج سعودی عرب میں کیاکر رہی ہیں۔ کھجوریں کھانے تو نہیں آئیں۔حافظ سعید صاحب فرماتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد جائز ہے تو پھر خدا نخواسطہ سعودی عرب کے خلاف بھی؟ آخر آل سعود کا شمار امریکہ کے چند بڑے اتحادیوں میں ہوتا ہے۔

باطل ، غاصب اور "لادینی"حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والی حکومتوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں علمائے دین۔ کیا وہ خود بھی باطل نہیں ہوتیں؟

"نہیں نہیں۔ایسی کوئی بات نہیں" ایک صاحب اپنے کالم میں فرما رہے ہیں " سیسی نے مرسی کو ہٹایا کیونکہ وہ اپنی پسند کا اسلام نافذ کر رہا تھا" تو کیا سیسی اب اپنی پسند کا اسلام نافذ کرے گا اسلام کی نام لیوا آل سعود کی مدد سے؟ "امریکہ فوجیں سعودی عرب میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے ہیں۔ایران کی طرف سے حملے کا خدشہ ہے" تو کیا وہ "قاتل"امریکہ جس کے خلاف جہاد جائز ہے ہمارے مقدس مقامات کی حفاظت کرے گا۔ بات کچھ  ہضم نہیں ہوتی۔اور ایرن مقامات مقدسہ پہ  حملہ کیوں کرے گا؟ وہ بھی تو ایک شریعی ملک ہے۔ 

کچھ سمجھ نہیں آرہی۔سب اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں یا سب اسلام کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ کسی کے خلاف جہاد جائز نہیں یا پھر سب کے خلاف جہاد جائز ہے۔اور یہ جہاد ہے کیا  پہلے یہ تو بتائیں؟ ہر طرف تضاد ہی تضاد ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو نہیں کہ یہ امریکہ،اخوان،سعودی عرب، سیسی،جہادی ایک ہی ہیں جو مل کر ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں؟

پس تحریر: باتیں آپس میں گڈمڈ ہونے لگی ہیں۔میرا دماغ پنکھے کی طرح گھومنے لگا ہے اورآپ کا دماغ بھی یقینا چکرا رہا ہوگا۔اس لیے اپنے ملکی حالات کا گھن چکر پھر کبھی سہی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بلاگ لکھنے اور آپ پڑھنے کے قابل نہ رہیں۔
مکمل تحریر >>