Pages

Saturday 13 June 2015

سراج الحق صاحب کا کوٹلی آزاد کشمیر میں جلسہ: ہماری زباں میں



کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور ایک عرصہ بعد ہم نے بھی کسی سیاسی جلسے میں شرکت کر ہی لی ہے۔ بحرحال یہ بات تو ہمیں آخر تک سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ جلسہ سیاسی تھا، مذہبی تھا یا پھر کوئی جہادی جلسہ تھا!!! اگر سیاسی ہوتا تو صرف سیاسی باتیں ہوتیں۔ لوگوں کی ٖفلاح و بہبود کے بارے میں اظہار خیال کیا جاتا۔ مگراس میں تو بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا عہدبھی کیا گیا تھا۔اور تو اور نریندر مودی کے بھی خوب لتے لیے گئے تھے۔ مذہبی ہوتا تو بس درس قران و حدیث دے کر رخصت کر دیا جاتا۔ یہ مکمل طور پر جہادی بھی نہیں تھا کہ بس ہندوستان اور مودی پر طنز و ملامت کے تیر ہی برسائے گئے اور ہوائی فائرنگ تک کرنے کی بھی جسارت نہیں کی گئی تھی۔۔۔۔۔۔دراصل یہ جلسہ تھا جماعت اسلامی کا اور مہمان خصوصی تھے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور یہ جلسہ ہمارے شہر کوٹلی آزاد جموں کشمیر میں منعقد ہوا۔

اس سے قبل 2013 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل مجھے بہاولپور میں عمران کے جلسے میں جانے کا بھی اتفاق ہوا تھا۔ بڑی امیدیں لے کر ہم جلسے میں پہنچے۔ جلسہ کیا تھا، ایک دھما چوکڑی مچی تھی۔ کرسیوں کا بھی نام و نشان نہیں تھا، بس بہاولپور کے رنگ سٹیڈیم سے متصل گراؤنڈ میں دھول ہی دھول تھی۔ اسی اثناء میں عمران خان صاحب ایک ہیلی کیپٹر میں تشریف لائے۔ آنکھوں پہ دھوپ والے سیاہ چشمے لگائے کچھ خوش پوش خواتیں کے ہمراہ سٹیج پر پہنچے جو کے عوام سے اچھا خاصا دور واقع تھا۔ تھوڑا سا انتظار کر کے عمران خان صاحب اپنی تقریر مکمل کر کی، ہیلی کپٹر پر چڑھے اورنظروں سے اوجھل ہو گئے(ان کی تقریر کے بارے میں کیا بتاؤں، تقریر ان کی ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے۔ بس جملے آگے پیچھے کر دیتے ہیں)۔ عوام ان کا دیدار کر کے ہی خوشی سے پاگل تھے پتا نہیں قریب سے دیکھ کے کیا حال ہوتا! پھر ہم جب تھک ہار کے ہاسٹل پہنچے تو پھر ہماری حالت وہی والی تھی کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔

شاید اسی تجربے سے سبق لیتے ہوئے جلسے جلوسوں کے بارے میں ہماری رائے اتنی اچھی نہ تھی۔ جماعت اسلامی کے جلسے کے بارے میں بھی ہمارا  یہی خیال تھا کہ سراج الحق صاحب تشریف لائیں گے۔ اپنی صورت دکھائیں گے اور پھر رخصت ہو جائیں گے!! 

جلسے کو 7 بجے شام کو شروع ہونا تھا اور یہ کوٹلی شہر کی تاریخ کا پہلا جلسہ تھا جو رات کو منعقد کیا گیا۔ اول تو یہاں جلسوں کا رواج ہی نہیں اور اگر کوئی جماعت جلسہ کرنے کی زحمت کر بھی لے تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کے لئے تنگ سی جگہ کا انتخاب کیا جائے اور پھر شہر کے آس پاس سے لوگوں کو(ان کی جیب گرم کر کے)  گاڑیوں میں ڈال کے لایا جاتا ہے اور یوں وہ جلسے منعقد ہوتے ہیں جن کے لیے آزاد کشمیر کے مقامی اخبارات "تاریخ ساز جلسہ" کے الفاظ استعمال کر کے لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں!

جلسے میں لوگوں کا جم غفیر


میں اپنے کزن فرخ کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچا جہاں دو بار تلاشی کر کے ہمیں اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ اندر داخل ہو کردیکھا تو پچھلے تجربے کی کچھ دھول ذہن سے اتر گئی۔ اندر سب انتظام ایک نظم و ضبط کے ساتھ ہو رہا تھا۔ ایک ترتیب کے ساتھ ہزاروں کرسیاں لگی تھیں۔ اور چاروں طرف منتظمین کھڑے معاملات سنبھال رہے تھے۔ اور تو اور لیڈر حضرات کا سٹیج بھی عوام سے خا صا قریب تھا۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ جماعت کے ترانے (جو کہ ہمیں گانے ہی لگے) پورے زور و شور کے ساتھ لگائے گئے تھے جن کی دھن کسی بھی اچھے گانے کو پیچھے مار سکتی ہے۔ اور یوں تفریح کا ایک کا ساماں بھی موجود تھا۔ اتنی تبدیلی تو تحریک انصاف پاکستان کی سیاست میں لے ہی آئی ہے۔

 سات بجے تک سراج الحق کو پہنچ جانا چاہئے تھا مگر ابھی تک ان کی نشست خالی تھی۔ مائک پر کھڑے میزبان بار بار ان کے آنے کی نوید سنا رہے تھے مگر انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جارہی تھیں۔ یہ تو بعد میں بتایا گیا کہ پنڈی سے آگے نکل کر لوگوں کےاستقبال کی وجہ سے راستے میں انہیں جگہ جگہ رکنا پڑا اور یوں انہیں کوٹلی شہر پہنچنے میں دیر ہوگئی۔

خیر اتنی دیر میں جلسہ گاہ میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ شہر کے لوگ بھی جوک در جوک آ رہے تھے۔ پتا نہیں یہ جماعت کی طرف جھکاؤ کی علامت تھی یا پھر سراج الحق صاحب کی شخٰصیت کی کشش تھی جو لوگوں کو اس جلسہ گاہ کی طرف کھینچ کر لے آئی تھی۔ موخر الذکر بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے!

بحرحال ایک بڑے قافلے کے ساتھ سراج الحق صاحب جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کے سٹیج پر پہنچنے کی دیر تھی کہ سب لوگ اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور پھر سراج الحق صآحب نے دونوں ہاتھ فضآ میں ہلا کر جلسے کا باقاعدہ آغاز کیا۔

جماعت کے قائدین سٹیج پر

سراج الحق صاحب پہلے دو گھنٹے تو مقامی رہنماؤں کی تقاریر سنتے رہے جن میں آزادکشمیر بھر کے جماعتیوں کے علاوہ برطانیہ اور سعودی عرب کے عہدے داران بھی شامل تھے۔ ہر تقریر تقریبا ایک جیسی تھی جس میں ایک طرف اسلامی نظام کے ذریعے اس کھوکھلے نظام کے خاتمے کی امیدیں دلائی گئی تھیں تو دوسری طرف سرینگر فتح کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔

حزب المجاہدین کے ایک نائب کمانڈر صاحب کو بھی اپنے دل کے جذبات بیان کرنے کا موقع دیا گیا جنہوں نے مودی اور بھارت  کو لفظوں کی گولے باری سے رگید ڈالا۔ سراج الحق صاحب نے چند روز قبل راولاکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے مودی کے سر کی قیمت شاید 90 کروڑ روپے لگائی تھی۔ حزب المجاہدین کے نائب کمانڈر شمشیر خان صاحب نے اپنی جماعت اسلامی  کے سربراہ  سے لگے ہاتھوں یہ شکوہ بھی کر ڈالا کہ "آپ کو نریندر مودی کے سرکی اتنی بڑی قیمت لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ مودی تو اس قابل ہی نہیں ہے"۔

ایک طویل انتظار کے بعد آخر کار سراج الحق صاحب مائک پر تشریف لائے۔ ہمارا خیال تھا کہ طویل سفر اور پھر لمبی تقاریر کی وجہ سے تھک چکے ہونگے مگر خاصے ہشاش بشاش نکلے۔ مائک پر آتے ہی انہوں نے خوشگوار انداز میں چٹکلا چھوڑا۔ کہنے لگے کہ "مجھے پتا چلا ہے کہ جماعت کے لوگوں نے آپ کے لئے کسی کھانے کا انتظام نہیں کیا اس لیے آپ سب لوگوں کو جو جلسے میں آئے ہیں صرف ثواب پہ گزارا کرنا پڑے"۔ پتا نہیں یہ مکالمہ انہوں نے پہلی بار بولا ہے یا پھر اور بھی جلسوں میں بول چکے ہیں مگر اس سے جلسہ گاہ کا ماحول خاصا خوشگوار ہوگیا،

ان کا حلیہ دیکھ کے پہلے تو دھچکا لگا کہ ہم سا عام حلیے اور چال ڈھال والا بندہ سینیٹر اور ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس ملک میں سیاست توچند گھرانوں کے گھر کی لونڈی ہے۔ پھر مجھے ایک مشہور ڈاکومینٹری "ٹو دی ساؤتھ آف بارڈر" کا ایک منظر یاد آیا جس میں لاطینی ملک چلی کی خاتون سربراہ مملکت لاطینی امریکہ کے سوشلسٹ حکمرانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "خطے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لیڈرحضرات ان عوام کی طرح نظر آتے ہیں جن پر وہ حکومت کر رہے ہیں۔ اگر آپ بولیویا جائیں اورصدر ایوو موریلز (Evo Morales) کے چہرے کی طرف دیکھیں اس کا چہرہ ایک عام بولیوین کا چہرہ ہے۔ ایسا ہی کچھ حال وینزویلا کے ہیوگو شاویز (Hugo Chavez) کا ہے۔ ایسا پہلا بار ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے جو حکمران تھے وہ امریکہ میں رہتے تھے اور انہیں ہسپانوی کی بجائے انگریزی پسند ہوا کرتی تھی اور وہ کہیں سے لاطینی امریکی نہیں لگتے تھے۔" گو لاطینی امریکہ کے سوشلسٹس اور پاکستان کے اسلام پسندوں کے درمیان تقابل غیر مناسب ہے مگر مجھے نہ جانے کیوں سراج الحق کے چہرے میں ایک عام پاکستانی کا چہرہ دکھائی دیا۔ ہمارے ہاں بہت کم ہوتا ہے کہ عوام اور لیڈران کے درمیان کوئی قدر مشترک ہو۔ ورنہ پاکستان کے سب ہی بڑے سیاست دان کسی اور ہی دنیا کی مخلوق نظر آتے ہیں۔ ان کا اس دھرتی سے ایک مصنوعی تعلق ہوتا ہے جو اقتدار سے برخاستگی کے بعد اکثر کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے!

سراج الحق صاحب کا خطاب بھی عوامی سیاست اور مذہب کا حسین امتزج تھا۔ عوام کے مسائل سے لے کر اسلامی ریاست کے قیام کے بارے میں انہوں نے تفضیلی گفتگو کی جس کے بڑے حصے سے اختلاف ہونے کے باوجود اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ کہیں کہیں ان کے مذکر مونث اور مونث مزکر میں بدل جانے سے ان کی اردو کا لطف دوبالا ہو جاتا۔ حسب معمول بھارت پر بھی انہوں نے کھل کے تنقید کی اور اس  کے بارے میں اپنے عزائم کا اعادہ بھی کیا۔ ویسے بھی آج کل وہ مودی کے بارے میں اپنے بیانات کی بدولت وہ بھارتی میڈیا کی تنقید کی زد پر ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی سخت زبان پر کوئی فرق نہیں پڑآ۔ مقبوضہ کشمیر جماعت کے رہنما سید علی گیلانی کا پیغام بھی انہوں نے سنایا۔ اور بھی کئی موضوعات پر انہوں نے جذبات کا اظہار کیا مگر ان کی گفتگو کا محور "بھارت" اور کشمیر ہی رہے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق خطاب کرتے ہوئے


 اس کے علاوہ بہت عرصے کے بعد کسی سیاستدان کی زبان سے غریب اور اس کے مسائل کے بارے میں بھی سننے کا موقع ملا۔ وقت کا ہیر پھیر کتنا عجیب ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر آج اسی لہجے میں بات کر رہے ہیں جو کبھی سوشلسٹس اور ترقی پسندوں کا خاصہ ہوا کرتا تھا!

خیر اسی دوران موسم بھی خوشگوار ہوگیااور ٹھنڈی ہواؤں نے ذہن کے سبھی دریچے بھی کھول کر رکھ دیے۔

اس جلسے میں بس ایک چیز کی کمی تھی اور وہ چیز تھی "سیاست"۔ ایک آدھ مقرر کے علاوہ شاید ہی کسی نے عوام سے ووٹ کی درخواست کی ہو۔ حتی کے کوٹلی شہر کے حلقے سے جو صاحب جماعت کے امیدوار تھے اور جن کی انتخابی مہم کیلئے یہ جلسہ ہوا تھا ان کا ذکر بھی شاذ ونادر ہی ہوا۔ ہم تو ان سے اچھی طرح واقف تھے مگر جہاں تک ہمارا خیال ہے جلسے میں موجود اکثر عوام کو جلسہ ختم ہونے کے بعد بھی ان کی خیر خبر نہیں ملی ہوگی۔ پچاس برس تو ہوگئے ہیں مگر جماعت اسلامی کا مذہبی سے سیاسی جماعت کی طرف ارتقاء نہ جانے کیوں تکمیل کا سورج نہیں دیکھ پا رہا۔ پتا نہیں اس زلف کے سر ہونے میں ابھی اور کتنا وقت لگے گا !!!!
مکمل تحریر >>

Thursday 30 April 2015

کلرکوں کی ہڑتال "کرپٹ حکومت" کے خلاف



ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک دوست کے ہمراہ ضلع کچہری جانے کا موقع ملا جہاں سب سرکاری محکموں کے ضلعی دفاتر واقع ہیں۔ اسی لیے  یہاں تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ صبح سے شام تک یہاں کھڑے اپنے کام نکلوانے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر فائلیں یہاں پڑی پڑی سڑ جاتی ہیں یا پھر انہیں دیمک کھا جاتی ہے۔

بظاہر پرسکوں نظر آنے والی ان عمارتوں کے اندر کرپشن کا جتنا بازار گرم ہوتا ہے اس کے بارے میں وہی لوگ جانتے ہیں جن کو ان سے واسطہ پڑا ہو۔ بے شمار لوگ ان کی وجہ سے اپنی زندگی بھر کی کمائی لٹا دیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو یہاں چکر لگاتے لگاتے قبر میں اتر جاتے ہیں مگر اپنا جائز کام نہیں کروا پاتے۔

ایک میز سے دوسری میز تک فائلیں لے جانے کیلئے کلرکوں کو نوٹوں کی خوشبو سنگھانی پڑتی ہے اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا کہ سفارش یا رشوت کے بغیر کسی کا کام ہو جائے۔ ایماندار لوگ یہاں بھی موجود ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔

میں اس دن کا ذکر کر رہا تھا جب میرا اسی کچہری سے گزر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آگے سے ایک بڑآ جلوس آ رہا ہے جس کے شرکاء بہت پرجوش انداز میں نعرہ زنی کر رہے تھے۔ ان کے نعرے کچھ اس قسم کے تھے:
کرپٹ حکومت مردہ باد
نا اہل چیف سیکرٹری مردہ باد
نااہل حکومت مردہ باد

میرے دل میں یہ بات آئی کہ یقینا عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور شاید وہ اس کرپشن کلچر کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے اسی جگہ پر آئے ہیں جو کہ کرپشن کا گڑھ ہے۔

مگر جیسے ہی میں جلوس کے قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ یہ ہڑتال کلرک کر رہے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی "زیادتیوں" پر صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے اور اپنے ساتھ انصاف چاہتے تھے۔ ان کے منہ سے کرپٹ حکومت مردہ باد والے نعرے سن یکدم میری ہنسی چھوٹ گئی اور ساتھ کھڑا دوست مجھے یوں حیرت سے دیکھنے لگا جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں!!!
مکمل تحریر >>

Sunday 15 March 2015

کوٹلی نامہ: کچھ ہمارے شہر کے بارے میں

کوٹلی آزاد جموں کشمیر کا ایک خوبصورت منظر
لوگ دنیا بھر میں گھوم پھر کے آتے ہیں اور ایسے سفر نامے لکھتے ہیں جنہیں پڑھ کر وہاں جانے کا شوق پیدا ہو نہ ہو ،منہ میں پانی ضرور بھر آتا ہے ۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے شہر اپنی جنم بھومی کے بارے میں آج تک چار حرف تک نہیں لکھ سکے۔۔۔ تو ہماری یہ تحریر اسی قرض کو چکانے کی ایک کوشش ہے۔ گو اس میں ہم نے اپنے شہر کی تعریف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر اس بات کا کیا کیجئے کہ یار دوستوں کی رائے کے مطابق ہماری "تعریف" بھی اعلی درجے کی برائی سےکسی صورت کم نہیں ہوتی۔ اب پڑھنے والوں کی مرضی کہ وہ اس کو کن معنوں میں لیتے ہیں۔

کوٹلی (آزاد جموں کشمیر) راولپنڈی سے شمال مشرق میں 141 کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے۔ عام طور پر یہ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے مگر یاد رکھیں یہ چار گھنٹے چھے اورآٹھ گھنٹوں میں بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ سب موسم کی صورت حال اور سڑکوں کی حالت پر منحصر ہے یہاں سڑکیں بھی ماشاءاللہ اس شعر کی عملی تصویر ہیں کہ
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں.

ہر بار جب ہم بہاولپور سے  گھر واپس لوٹتے تو سڑکوں کا ایک نیا روپ نظر آتا ہے۔ کبھی اتنی چمکتی ہوئی سڑکیں  ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور کبھی گاڑی گرد سے ایسے اٹ جاتی جیسے صحرا سے گزر رہی ہو۔

ہمارے شہر کی چیدہ چیدہ خصوصیات درج ذیل ہیں:

محل وقوع: کوٹلی شہر کا محل وقوع کچھ اس طرح ہے کہ اس کے شمال میں پہاڑ ہیں۔ جنوب میں بھی ایک پہاڑی سلسلہ ہے اور خوشقسمتی سے مشرق اور مغرب میں بھی پہاڑ ہی پہاڑ ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کوٹلی شہر خود بھی ایک پہاڑ پر ہی واقع ہے۔ گو یہاں کے باشندے اس بات کی بھرپور تردید کریں گے اور خود کو پہاڑی کی بجائے شہری کہلوانا پسند کرینگے مگر ان کی باتوں پر نہ جائیے گا۔

مدینہ المساجد: یہاں ہر سو آپ کو مسجدیں ہی مسجدیں نظر آئیں گی جن کی وجہ سے کوٹلی شہر کو مدینہ المساجد کہا جاتا ہے۔ اور تو اور یہاں آپ کو پاکستان کی مشہور ترین مساجد کی طرز پر تعمیر کی گئی چھوٹی مساجد بھی ملیں گی۔ بچے جب فیصل مسجد جانیں کی ضد کریں تو ماں باپ انہیں ایسی ہی فیصل مسجد میں لے جاتے ہیں اور بچے اسی کو دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ چونکہ مذہبی ہیں اس لیے انہوں نے مسجدیں تو بہت تعمیر کرائی ہیں مگر لوگوں کی اکثریت  عموما ان میں جانے سے پرہیز کرتی ہے تا کہ وہاں زیادہ گندگی نہ پھیلے۔ اس سے آپ یہاں کے لوگوں کی صفائی پسندی کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

کوٹلی کی ایک چھوٹی مگر خوبصورت مسجد (فوٹو: بلال حسن BH photography)


دریائے پونچھ: دریائے جہلم کا جڑواں بھائی دریائے پونچھ شہر کو تین اطراف سے گھیرے میں لے کر گزرتا ہے جو اس جسارت پر  خود بھی شرمندہ ہوگا۔۔ کیونکہ سارے شہر کی گندگی کا بوجھ اس بیچارے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ شہر کے لوگ چونکہ بہت صفائی پسند ہیں  اس لئے ساری گندگی بلا تعامل اس کے حولے کر دیتے ہیں۔ دریا بھی پچھتاتا ہو گا کہ اس نے کوٹلی کے پاس سے ہی کیوں گزرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے وہ برسات کے موسم میں اکثر بپھر کر آس پاس کی آبادیوں انتقام بھی لے لیتا ہے۔

آبادی: آج سے بیس تیس سال پہلے کوٹلی کی آبادی ہزاروں میں  تھی جو آج لاکھوں میں بدل چکی ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجوہات کے بارے بھی  ابہام موجود ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اتنے سارے لوگ ادھر کہاں سے ٹپکے  ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے آنکھیں بند کر کے سڑک پار کی جا سکتی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر بھی سڑک پار کرنا عذاب لگتا ہے۔

علم دوستی:کوٹلی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ لاکھوں کی آبادی ہونے کے باوجود یہاں کوئی لائبریری نہیں۔ کچھ لوگ روایت کرتے ہیں کہ کسی دور میں یہاں ایک لائبریری بھی ہوا کرتی تھی لیکن لوگوں کی علم دوستی کی وجہ سے بند ہو گئی۔ یہاں کے علم دوست حضرات اول تو یہاں جانے سے ہی پرہیز کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ لگانے سے کتابیں خرا ب نہ ہو جائیں اور خدانخواستہ علمی ورثے کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ جائے۔ اور جو لوگ کبھی بھولے بسرے یہاں کا رخ کر لیتے تھے وہ اس قدر علم دوست تھے کہ کتابوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے تھے تاکہ ساری زندگی اس علمی ورثے کی حفاظت کر سکیں۔ یوں اس علمی ورثے کی تکریم و حفاظت کے چکر میں لائبریری نے بند ہونا ہی مناسب سمجھا۔

قابل دید مقامات: یہاں کے قابل دید مقامات میں یہاں کے سرکاری دفاترسر فہرست ہیں جہاں صبح و شام سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے اور یہ مقامی سیاح لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے جائز و ناجائز طریقے سے اپنا کام نکلوانے میں لگے رہتے ہیں۔ باقی اگر شہر میں اگر کسی کو فرصت مل جائے تو وہ دریا کا رخ کرتا ہے یا شہر کے آس پاس  پہاڑوں پہ موجود ویو پوائنٹس  کا نظارہ کرتا ہے۔ دریا کے کنارے ہمارا ایک پسندیدہ پارک بھی ہوا کرتا تھا جو موجودہ سیلاب میں دریا کے غیض و غضب کا نشانہ بن گیا اور اس کی دوبارہ تعمیر تک اندیشہ ہے کہ ہمارے بال بھی سفید ہو چکے ہونگے۔ باقی آثار قدیمہ کے طور پر کچھ ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مندر بھی موجود ہیں جو زمانہ کی شکست و ریخت سے ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے اندر جانا آپ کو مہنگا پڑھ سکتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہیں وہ گرنے کیلئے آپ ہی کا انتظار نہ کر رہے ہوں۔

تعمیرات: یہاں سب کچھ زیر تعمیر ہوتا ہے۔ ایک سٹیڈیم ہے جو گزشتہ پندرہ برس سے زیر تعمیر ہے۔ کئی سڑکیں ہیں جو ہمیشہ لگتا ہے کہ اگلے سال تک مکمل ہوجائیں گی۔  بس ایک اہم پل ہے  جو روایات کے برعکس 6،7 کے عرصے میں ہی تعمیر کر لیا گیا ہے۔ اور تو اور ایک چھوٹا سا  ڈیم بھی بن  رہا ہے جو اگر مقامی ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو ایک صدی تک بھی اس کے مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔

صنعت: یہاں کی سب سے بڑی صنعت یہاں کے نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں استاد طلبہ کی درگت بناتے ہیں اور طلبہ اساتذہ کی۔ ابن سینا و رازی سے لے کر قائد اعظم تک کے نام پر سکول و کالج بنے ہیں جن کا حال دیکھ کر یقینا وہ لوگ بھی کم از کم بے ہوش ہو جاتے۔

مکمل تحریر >>