Pages

Thursday 18 February 2016

ہندوستان میں طلباء کی صفوں سے اٹھتی نئی آوازوں کی داستان اور ہم


پاکستان کے بحر سیاست میں آج کل ایک سکوت  طاری ہے لیکن ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں آج کل ہمت اور سچ کی ایک نئی داستاں  لکھی جارہی ہے۔ ہندوستان  کے دارالحکومت دہلی سے ایک طوفان اٹھا ہے جس نے  ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں کی سیاسی فضا  میں بھی ہلچل مچا دی ہے ہے اور حب الوطنی اور غداری جیسے نازک معاملات پر ایک نئی بحث کو جنم دیا  ہے۔

اس داستان کا آغاز ہوتا ہے دہلی کی شہرہ آفاق جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے جو دہائیوں سے بائیں بازو کی قوتوں کا گڑھ رہا ہے۔9 فروری کے دن یونیورسٹی کے طلباء کے ایک گروہ نے افضل گرو کی پھانسی کے خلاف ایک پروگرام رکھا۔ پروگرام  کا عنوان تھا: افضل گرو اور مقبول بھٹ کے عدالتی قتل کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک شام۔ ہندو انتہا پرست بی جے پی کے سٹوڈنٹ ونگ کو جب اس کی بھنک پڑی تو انہوں نے اسے بھرپور طریقے سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں دونوں گروہوں کے درمیان تصادم ہوتے ہوتے بچا۔ اسی گرما گرمی میں کچھ طلباء نے کشمیر کی آزادی کے لئے نعرے لگانا شروع کر دیے اور اس واقعے کی ویڈیو زپورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

بی جے پی جو کہ پہلے ہی یونیورسٹی کیمپس پر اپنی اجارہ داری چاہتی ہے اس کے ہاتھ ایک موقع آ گیا تھا۔ دائیں بازو کے ٹی وی اینکرز اور ہندوستان کے میڈیا کے ایک بدمست حصے نے ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ کیچڑ سے خود بھی ان کے چہرے آلودہ ہو گئے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار سے لے کے کشمیریوں کی حمایت کرنے والےعمر خالد تک کسی کو نہیں بخشا گیا۔ کسی نے ان  پر ملک سے غداری کا الزام لگایا تو کسی نے ان سب کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ شاید ہی کوئی الزام یا گالی بچی ہو گی جن سے وہ فیض یاب نہ ہوئے ہوں۔ حتی کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بی جے پی کے رہنماؤں اور  ہمدروں نے ان طلباء کی مادر علمی جواہرلال نہرو یونیورسٹی کو بند کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔


اور تو اور کچھ ٹی وی چینلز نے تو ان سٹوڈنٹ لیڈرز کا تعلق لشکر طیبہ اور جیش محمد سے بھی جوڑ دیا جس پر یقینا بھاری ایجنسیاں را اور سی بی آئی بھی اپنی دکانیں بند کرنے کا سوچ رہی ہونگی  کہ ہمارا کیا فائدہ جب ان چینلز کے جاسوس ہم سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔مگر ان طلباء کی ہمت کی بھی داد دینی پڑے کی کہ انہوں نے اس سنگ باری ء دشنام و ملامت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر فورم پر اپنی رائے پہ ڈٹ رہے  اور کہیں بھی کشمیر کی آزادی کے بارے میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ۔ یہاں تک کہ کنہیا کمار میڈیا پر اپنی حس مزاح کا بھی بھرپور استعمال کرتے رہے۔ ایک اینکر  نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہندوستان سے آزادی چاہئے جو آپ یہ نعرے لگا رہے ہیں۔ جواب  دیا نہیں ، غریبی سے آزادی چاہئے، ظلم اور جہالت سے آزادی چاہئے۔ ایک اور موقع پر بی جی پی کے ایک عہدیدار نے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ  کے طور پر ان سے "بھارت ماتا کی جے" کا نعرہ لگانے کا مطالبہ کیا۔ جس کے جواب میں موصوف نے "بھارت کی ہر ماتا کی جے، بھارت کے ہر پتا کی جے" کا نعرہ لگا کر ان کا منہ بند کر دیا۔


بھارتی صحافی شیکھر گپتا کا بھارتی میڈیا کی پھرتیوں پر تبصرہ

اگلے دن کنہیا کمار سمیت کئی طلباء کو گرفتار کر لیا گیا۔ کنہیا کمار کو عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت میں لے جاتے ہوئے پولیس کی موجودگی میں انتہا پرست وکلاء کے ایک گروہ نے ان پر تشدد کیا اور ایسا ہی کچھ عدالت سے واپسی پر بھی ہوا۔ مگر اس تشدد کے باوجود کنہیا کمار نے  بی جے پی، آر ایس ایس اور اس کے حامی میڈیا کے سامنے سرتک نہ جھکایا۔ فی الحال وہ دو ہفتے تک پولیس کی حراست میں رہیں گے مگر  ان کے جیل جانے کے بعد بھی ان کے خلاف طوفان بدتمیزی نہیں رکا۔

طالبعلم لیڈر کنہیا کمار پر عدالت کے باہر تشدد

جہاں ایک طرف ہندوستان کی ساری طاقتیں ان چند طلباء کے سامے صف آراء ہیں وہاں ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت میں بھی اٹھ آیا ہے۔ بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے کنہیا کمار کے گھر کا دورہ کیاہے اور کنہیا کمار کے بیان کو اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر  اس کی مکمل حمایت کی ہے۔ راہول گاندھی سے لے کر اروند کجریوال تک بے شمار سیاستدانوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کے ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنے کے خواب کی تعبیر میں ابھی کئی رکاوٹیں باقی ہے۔

مگر اس سارے معاملے نے ہندوستان میں ایک نئی  بحث کو جنم دیا کہ غدار وطن کی آخر تعریف کیا ہے۔ کیا ریاست کے مسلط کردہ درسی کتب میں پڑھائے جانے والے آدھے سچ آدھے جھوٹ  کو نہ ماننا غداری ہے؟ کیا ملک کے کچلے ہوئے لوگوں کے بارے میں آواز اٹھانا غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ اور وہ کونسا مقام ہے جہاں اظہار رائے کی آزادی کی سرحدیں ختم ہوتی ہے اور غداری کا مقام شروع ہوتا ہے؟

چلیے اب ہندوستان سے واپس پاکستان لوٹ آتے ہیں۔ بلوچستان میں آج بھی ہر روز لاشیں گرتی ہیں۔ مگر ہم میں سے کس میں ہمت ہے کہ اس بارے میں بات کرے اور کس میں ہمت ہے کہ اس بارے میں سنے۔ ہم تو بم دھماکوں میں مرنے والے بے گناہ لوگوں کو شہید کہنے سے پہلے بھی دس بار سوچتے ہیں، غلط کو غلط کہنا تو دور کی بات ہے۔ ہمارے ہاں درجنوں یونیورسٹیاں  اور درجنوں طلباء تنظیمیں ہیں۔ مگر  کہیں بھی طلباء میں ہمت ہے نہ قابلیت کہ وہ معاشرے کو درپیش حقیقی مسائل پہ آواز بلند کرے۔ ہم لوگ نہ پڑھائی میں کچھ خاص کر پاتے ہیں نہ غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمارا کوئی کردار ہے۔ لے دے کے ہم اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے لئے گھنٹوں بحث کرتے ہیں۔ ان کے لیڈروں کو فرشتہ ثابت کرتے ہیں اور بس ہماری دوڑ یہیں تک ہے۔ ایسا لگتا کے ہم کسی خول میں بند ہیں جس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ پورے ملک میں ایک بھی کنہیا کمار نہیں جو کہ مظلوموں کے لیے آواز اٹھا سکے اور پھر ہم تاسف سے کہتے ہیں کہ ملک ہندوستان سے بہت پیچھے رہ گیا ہے!!
مکمل تحریر >>

Saturday 13 June 2015

سراج الحق صاحب کا کوٹلی آزاد کشمیر میں جلسہ: ہماری زباں میں



کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور ایک عرصہ بعد ہم نے بھی کسی سیاسی جلسے میں شرکت کر ہی لی ہے۔ بحرحال یہ بات تو ہمیں آخر تک سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ جلسہ سیاسی تھا، مذہبی تھا یا پھر کوئی جہادی جلسہ تھا!!! اگر سیاسی ہوتا تو صرف سیاسی باتیں ہوتیں۔ لوگوں کی ٖفلاح و بہبود کے بارے میں اظہار خیال کیا جاتا۔ مگراس میں تو بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا عہدبھی کیا گیا تھا۔اور تو اور نریندر مودی کے بھی خوب لتے لیے گئے تھے۔ مذہبی ہوتا تو بس درس قران و حدیث دے کر رخصت کر دیا جاتا۔ یہ مکمل طور پر جہادی بھی نہیں تھا کہ بس ہندوستان اور مودی پر طنز و ملامت کے تیر ہی برسائے گئے اور ہوائی فائرنگ تک کرنے کی بھی جسارت نہیں کی گئی تھی۔۔۔۔۔۔دراصل یہ جلسہ تھا جماعت اسلامی کا اور مہمان خصوصی تھے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور یہ جلسہ ہمارے شہر کوٹلی آزاد جموں کشمیر میں منعقد ہوا۔

اس سے قبل 2013 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل مجھے بہاولپور میں عمران کے جلسے میں جانے کا بھی اتفاق ہوا تھا۔ بڑی امیدیں لے کر ہم جلسے میں پہنچے۔ جلسہ کیا تھا، ایک دھما چوکڑی مچی تھی۔ کرسیوں کا بھی نام و نشان نہیں تھا، بس بہاولپور کے رنگ سٹیڈیم سے متصل گراؤنڈ میں دھول ہی دھول تھی۔ اسی اثناء میں عمران خان صاحب ایک ہیلی کیپٹر میں تشریف لائے۔ آنکھوں پہ دھوپ والے سیاہ چشمے لگائے کچھ خوش پوش خواتیں کے ہمراہ سٹیج پر پہنچے جو کے عوام سے اچھا خاصا دور واقع تھا۔ تھوڑا سا انتظار کر کے عمران خان صاحب اپنی تقریر مکمل کر کی، ہیلی کپٹر پر چڑھے اورنظروں سے اوجھل ہو گئے(ان کی تقریر کے بارے میں کیا بتاؤں، تقریر ان کی ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے۔ بس جملے آگے پیچھے کر دیتے ہیں)۔ عوام ان کا دیدار کر کے ہی خوشی سے پاگل تھے پتا نہیں قریب سے دیکھ کے کیا حال ہوتا! پھر ہم جب تھک ہار کے ہاسٹل پہنچے تو پھر ہماری حالت وہی والی تھی کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔

شاید اسی تجربے سے سبق لیتے ہوئے جلسے جلوسوں کے بارے میں ہماری رائے اتنی اچھی نہ تھی۔ جماعت اسلامی کے جلسے کے بارے میں بھی ہمارا  یہی خیال تھا کہ سراج الحق صاحب تشریف لائیں گے۔ اپنی صورت دکھائیں گے اور پھر رخصت ہو جائیں گے!! 

جلسے کو 7 بجے شام کو شروع ہونا تھا اور یہ کوٹلی شہر کی تاریخ کا پہلا جلسہ تھا جو رات کو منعقد کیا گیا۔ اول تو یہاں جلسوں کا رواج ہی نہیں اور اگر کوئی جماعت جلسہ کرنے کی زحمت کر بھی لے تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کے لئے تنگ سی جگہ کا انتخاب کیا جائے اور پھر شہر کے آس پاس سے لوگوں کو(ان کی جیب گرم کر کے)  گاڑیوں میں ڈال کے لایا جاتا ہے اور یوں وہ جلسے منعقد ہوتے ہیں جن کے لیے آزاد کشمیر کے مقامی اخبارات "تاریخ ساز جلسہ" کے الفاظ استعمال کر کے لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں!

جلسے میں لوگوں کا جم غفیر


میں اپنے کزن فرخ کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچا جہاں دو بار تلاشی کر کے ہمیں اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ اندر داخل ہو کردیکھا تو پچھلے تجربے کی کچھ دھول ذہن سے اتر گئی۔ اندر سب انتظام ایک نظم و ضبط کے ساتھ ہو رہا تھا۔ ایک ترتیب کے ساتھ ہزاروں کرسیاں لگی تھیں۔ اور چاروں طرف منتظمین کھڑے معاملات سنبھال رہے تھے۔ اور تو اور لیڈر حضرات کا سٹیج بھی عوام سے خا صا قریب تھا۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ جماعت کے ترانے (جو کہ ہمیں گانے ہی لگے) پورے زور و شور کے ساتھ لگائے گئے تھے جن کی دھن کسی بھی اچھے گانے کو پیچھے مار سکتی ہے۔ اور یوں تفریح کا ایک کا ساماں بھی موجود تھا۔ اتنی تبدیلی تو تحریک انصاف پاکستان کی سیاست میں لے ہی آئی ہے۔

 سات بجے تک سراج الحق کو پہنچ جانا چاہئے تھا مگر ابھی تک ان کی نشست خالی تھی۔ مائک پر کھڑے میزبان بار بار ان کے آنے کی نوید سنا رہے تھے مگر انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جارہی تھیں۔ یہ تو بعد میں بتایا گیا کہ پنڈی سے آگے نکل کر لوگوں کےاستقبال کی وجہ سے راستے میں انہیں جگہ جگہ رکنا پڑا اور یوں انہیں کوٹلی شہر پہنچنے میں دیر ہوگئی۔

خیر اتنی دیر میں جلسہ گاہ میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ شہر کے لوگ بھی جوک در جوک آ رہے تھے۔ پتا نہیں یہ جماعت کی طرف جھکاؤ کی علامت تھی یا پھر سراج الحق صاحب کی شخٰصیت کی کشش تھی جو لوگوں کو اس جلسہ گاہ کی طرف کھینچ کر لے آئی تھی۔ موخر الذکر بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے!

بحرحال ایک بڑے قافلے کے ساتھ سراج الحق صاحب جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کے سٹیج پر پہنچنے کی دیر تھی کہ سب لوگ اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور پھر سراج الحق صآحب نے دونوں ہاتھ فضآ میں ہلا کر جلسے کا باقاعدہ آغاز کیا۔

جماعت کے قائدین سٹیج پر

سراج الحق صاحب پہلے دو گھنٹے تو مقامی رہنماؤں کی تقاریر سنتے رہے جن میں آزادکشمیر بھر کے جماعتیوں کے علاوہ برطانیہ اور سعودی عرب کے عہدے داران بھی شامل تھے۔ ہر تقریر تقریبا ایک جیسی تھی جس میں ایک طرف اسلامی نظام کے ذریعے اس کھوکھلے نظام کے خاتمے کی امیدیں دلائی گئی تھیں تو دوسری طرف سرینگر فتح کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔

حزب المجاہدین کے ایک نائب کمانڈر صاحب کو بھی اپنے دل کے جذبات بیان کرنے کا موقع دیا گیا جنہوں نے مودی اور بھارت  کو لفظوں کی گولے باری سے رگید ڈالا۔ سراج الحق صاحب نے چند روز قبل راولاکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے مودی کے سر کی قیمت شاید 90 کروڑ روپے لگائی تھی۔ حزب المجاہدین کے نائب کمانڈر شمشیر خان صاحب نے اپنی جماعت اسلامی  کے سربراہ  سے لگے ہاتھوں یہ شکوہ بھی کر ڈالا کہ "آپ کو نریندر مودی کے سرکی اتنی بڑی قیمت لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ مودی تو اس قابل ہی نہیں ہے"۔

ایک طویل انتظار کے بعد آخر کار سراج الحق صاحب مائک پر تشریف لائے۔ ہمارا خیال تھا کہ طویل سفر اور پھر لمبی تقاریر کی وجہ سے تھک چکے ہونگے مگر خاصے ہشاش بشاش نکلے۔ مائک پر آتے ہی انہوں نے خوشگوار انداز میں چٹکلا چھوڑا۔ کہنے لگے کہ "مجھے پتا چلا ہے کہ جماعت کے لوگوں نے آپ کے لئے کسی کھانے کا انتظام نہیں کیا اس لیے آپ سب لوگوں کو جو جلسے میں آئے ہیں صرف ثواب پہ گزارا کرنا پڑے"۔ پتا نہیں یہ مکالمہ انہوں نے پہلی بار بولا ہے یا پھر اور بھی جلسوں میں بول چکے ہیں مگر اس سے جلسہ گاہ کا ماحول خاصا خوشگوار ہوگیا،

ان کا حلیہ دیکھ کے پہلے تو دھچکا لگا کہ ہم سا عام حلیے اور چال ڈھال والا بندہ سینیٹر اور ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس ملک میں سیاست توچند گھرانوں کے گھر کی لونڈی ہے۔ پھر مجھے ایک مشہور ڈاکومینٹری "ٹو دی ساؤتھ آف بارڈر" کا ایک منظر یاد آیا جس میں لاطینی ملک چلی کی خاتون سربراہ مملکت لاطینی امریکہ کے سوشلسٹ حکمرانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "خطے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لیڈرحضرات ان عوام کی طرح نظر آتے ہیں جن پر وہ حکومت کر رہے ہیں۔ اگر آپ بولیویا جائیں اورصدر ایوو موریلز (Evo Morales) کے چہرے کی طرف دیکھیں اس کا چہرہ ایک عام بولیوین کا چہرہ ہے۔ ایسا ہی کچھ حال وینزویلا کے ہیوگو شاویز (Hugo Chavez) کا ہے۔ ایسا پہلا بار ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے جو حکمران تھے وہ امریکہ میں رہتے تھے اور انہیں ہسپانوی کی بجائے انگریزی پسند ہوا کرتی تھی اور وہ کہیں سے لاطینی امریکی نہیں لگتے تھے۔" گو لاطینی امریکہ کے سوشلسٹس اور پاکستان کے اسلام پسندوں کے درمیان تقابل غیر مناسب ہے مگر مجھے نہ جانے کیوں سراج الحق کے چہرے میں ایک عام پاکستانی کا چہرہ دکھائی دیا۔ ہمارے ہاں بہت کم ہوتا ہے کہ عوام اور لیڈران کے درمیان کوئی قدر مشترک ہو۔ ورنہ پاکستان کے سب ہی بڑے سیاست دان کسی اور ہی دنیا کی مخلوق نظر آتے ہیں۔ ان کا اس دھرتی سے ایک مصنوعی تعلق ہوتا ہے جو اقتدار سے برخاستگی کے بعد اکثر کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے!

سراج الحق صاحب کا خطاب بھی عوامی سیاست اور مذہب کا حسین امتزج تھا۔ عوام کے مسائل سے لے کر اسلامی ریاست کے قیام کے بارے میں انہوں نے تفضیلی گفتگو کی جس کے بڑے حصے سے اختلاف ہونے کے باوجود اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ کہیں کہیں ان کے مذکر مونث اور مونث مزکر میں بدل جانے سے ان کی اردو کا لطف دوبالا ہو جاتا۔ حسب معمول بھارت پر بھی انہوں نے کھل کے تنقید کی اور اس  کے بارے میں اپنے عزائم کا اعادہ بھی کیا۔ ویسے بھی آج کل وہ مودی کے بارے میں اپنے بیانات کی بدولت وہ بھارتی میڈیا کی تنقید کی زد پر ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی سخت زبان پر کوئی فرق نہیں پڑآ۔ مقبوضہ کشمیر جماعت کے رہنما سید علی گیلانی کا پیغام بھی انہوں نے سنایا۔ اور بھی کئی موضوعات پر انہوں نے جذبات کا اظہار کیا مگر ان کی گفتگو کا محور "بھارت" اور کشمیر ہی رہے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق خطاب کرتے ہوئے


 اس کے علاوہ بہت عرصے کے بعد کسی سیاستدان کی زبان سے غریب اور اس کے مسائل کے بارے میں بھی سننے کا موقع ملا۔ وقت کا ہیر پھیر کتنا عجیب ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر آج اسی لہجے میں بات کر رہے ہیں جو کبھی سوشلسٹس اور ترقی پسندوں کا خاصہ ہوا کرتا تھا!

خیر اسی دوران موسم بھی خوشگوار ہوگیااور ٹھنڈی ہواؤں نے ذہن کے سبھی دریچے بھی کھول کر رکھ دیے۔

اس جلسے میں بس ایک چیز کی کمی تھی اور وہ چیز تھی "سیاست"۔ ایک آدھ مقرر کے علاوہ شاید ہی کسی نے عوام سے ووٹ کی درخواست کی ہو۔ حتی کے کوٹلی شہر کے حلقے سے جو صاحب جماعت کے امیدوار تھے اور جن کی انتخابی مہم کیلئے یہ جلسہ ہوا تھا ان کا ذکر بھی شاذ ونادر ہی ہوا۔ ہم تو ان سے اچھی طرح واقف تھے مگر جہاں تک ہمارا خیال ہے جلسے میں موجود اکثر عوام کو جلسہ ختم ہونے کے بعد بھی ان کی خیر خبر نہیں ملی ہوگی۔ پچاس برس تو ہوگئے ہیں مگر جماعت اسلامی کا مذہبی سے سیاسی جماعت کی طرف ارتقاء نہ جانے کیوں تکمیل کا سورج نہیں دیکھ پا رہا۔ پتا نہیں اس زلف کے سر ہونے میں ابھی اور کتنا وقت لگے گا !!!!
مکمل تحریر >>

Thursday 30 April 2015

کلرکوں کی ہڑتال "کرپٹ حکومت" کے خلاف



ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک دوست کے ہمراہ ضلع کچہری جانے کا موقع ملا جہاں سب سرکاری محکموں کے ضلعی دفاتر واقع ہیں۔ اسی لیے  یہاں تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ صبح سے شام تک یہاں کھڑے اپنے کام نکلوانے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر فائلیں یہاں پڑی پڑی سڑ جاتی ہیں یا پھر انہیں دیمک کھا جاتی ہے۔

بظاہر پرسکوں نظر آنے والی ان عمارتوں کے اندر کرپشن کا جتنا بازار گرم ہوتا ہے اس کے بارے میں وہی لوگ جانتے ہیں جن کو ان سے واسطہ پڑا ہو۔ بے شمار لوگ ان کی وجہ سے اپنی زندگی بھر کی کمائی لٹا دیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو یہاں چکر لگاتے لگاتے قبر میں اتر جاتے ہیں مگر اپنا جائز کام نہیں کروا پاتے۔

ایک میز سے دوسری میز تک فائلیں لے جانے کیلئے کلرکوں کو نوٹوں کی خوشبو سنگھانی پڑتی ہے اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا کہ سفارش یا رشوت کے بغیر کسی کا کام ہو جائے۔ ایماندار لوگ یہاں بھی موجود ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔

میں اس دن کا ذکر کر رہا تھا جب میرا اسی کچہری سے گزر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آگے سے ایک بڑآ جلوس آ رہا ہے جس کے شرکاء بہت پرجوش انداز میں نعرہ زنی کر رہے تھے۔ ان کے نعرے کچھ اس قسم کے تھے:
کرپٹ حکومت مردہ باد
نا اہل چیف سیکرٹری مردہ باد
نااہل حکومت مردہ باد

میرے دل میں یہ بات آئی کہ یقینا عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور شاید وہ اس کرپشن کلچر کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے اسی جگہ پر آئے ہیں جو کہ کرپشن کا گڑھ ہے۔

مگر جیسے ہی میں جلوس کے قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ یہ ہڑتال کلرک کر رہے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی "زیادتیوں" پر صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے اور اپنے ساتھ انصاف چاہتے تھے۔ ان کے منہ سے کرپٹ حکومت مردہ باد والے نعرے سن یکدم میری ہنسی چھوٹ گئی اور ساتھ کھڑا دوست مجھے یوں حیرت سے دیکھنے لگا جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں!!!
مکمل تحریر >>

Sunday 15 March 2015

کوٹلی نامہ: کچھ ہمارے شہر کے بارے میں

کوٹلی آزاد جموں کشمیر کا ایک خوبصورت منظر
لوگ دنیا بھر میں گھوم پھر کے آتے ہیں اور ایسے سفر نامے لکھتے ہیں جنہیں پڑھ کر وہاں جانے کا شوق پیدا ہو نہ ہو ،منہ میں پانی ضرور بھر آتا ہے ۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے شہر اپنی جنم بھومی کے بارے میں آج تک چار حرف تک نہیں لکھ سکے۔۔۔ تو ہماری یہ تحریر اسی قرض کو چکانے کی ایک کوشش ہے۔ گو اس میں ہم نے اپنے شہر کی تعریف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر اس بات کا کیا کیجئے کہ یار دوستوں کی رائے کے مطابق ہماری "تعریف" بھی اعلی درجے کی برائی سےکسی صورت کم نہیں ہوتی۔ اب پڑھنے والوں کی مرضی کہ وہ اس کو کن معنوں میں لیتے ہیں۔

کوٹلی (آزاد جموں کشمیر) راولپنڈی سے شمال مشرق میں 141 کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے۔ عام طور پر یہ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے مگر یاد رکھیں یہ چار گھنٹے چھے اورآٹھ گھنٹوں میں بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ سب موسم کی صورت حال اور سڑکوں کی حالت پر منحصر ہے یہاں سڑکیں بھی ماشاءاللہ اس شعر کی عملی تصویر ہیں کہ
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں.

ہر بار جب ہم بہاولپور سے  گھر واپس لوٹتے تو سڑکوں کا ایک نیا روپ نظر آتا ہے۔ کبھی اتنی چمکتی ہوئی سڑکیں  ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور کبھی گاڑی گرد سے ایسے اٹ جاتی جیسے صحرا سے گزر رہی ہو۔

ہمارے شہر کی چیدہ چیدہ خصوصیات درج ذیل ہیں:

محل وقوع: کوٹلی شہر کا محل وقوع کچھ اس طرح ہے کہ اس کے شمال میں پہاڑ ہیں۔ جنوب میں بھی ایک پہاڑی سلسلہ ہے اور خوشقسمتی سے مشرق اور مغرب میں بھی پہاڑ ہی پہاڑ ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کوٹلی شہر خود بھی ایک پہاڑ پر ہی واقع ہے۔ گو یہاں کے باشندے اس بات کی بھرپور تردید کریں گے اور خود کو پہاڑی کی بجائے شہری کہلوانا پسند کرینگے مگر ان کی باتوں پر نہ جائیے گا۔

مدینہ المساجد: یہاں ہر سو آپ کو مسجدیں ہی مسجدیں نظر آئیں گی جن کی وجہ سے کوٹلی شہر کو مدینہ المساجد کہا جاتا ہے۔ اور تو اور یہاں آپ کو پاکستان کی مشہور ترین مساجد کی طرز پر تعمیر کی گئی چھوٹی مساجد بھی ملیں گی۔ بچے جب فیصل مسجد جانیں کی ضد کریں تو ماں باپ انہیں ایسی ہی فیصل مسجد میں لے جاتے ہیں اور بچے اسی کو دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ چونکہ مذہبی ہیں اس لیے انہوں نے مسجدیں تو بہت تعمیر کرائی ہیں مگر لوگوں کی اکثریت  عموما ان میں جانے سے پرہیز کرتی ہے تا کہ وہاں زیادہ گندگی نہ پھیلے۔ اس سے آپ یہاں کے لوگوں کی صفائی پسندی کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

کوٹلی کی ایک چھوٹی مگر خوبصورت مسجد (فوٹو: بلال حسن BH photography)


دریائے پونچھ: دریائے جہلم کا جڑواں بھائی دریائے پونچھ شہر کو تین اطراف سے گھیرے میں لے کر گزرتا ہے جو اس جسارت پر  خود بھی شرمندہ ہوگا۔۔ کیونکہ سارے شہر کی گندگی کا بوجھ اس بیچارے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ شہر کے لوگ چونکہ بہت صفائی پسند ہیں  اس لئے ساری گندگی بلا تعامل اس کے حولے کر دیتے ہیں۔ دریا بھی پچھتاتا ہو گا کہ اس نے کوٹلی کے پاس سے ہی کیوں گزرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے وہ برسات کے موسم میں اکثر بپھر کر آس پاس کی آبادیوں انتقام بھی لے لیتا ہے۔

آبادی: آج سے بیس تیس سال پہلے کوٹلی کی آبادی ہزاروں میں  تھی جو آج لاکھوں میں بدل چکی ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجوہات کے بارے بھی  ابہام موجود ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اتنے سارے لوگ ادھر کہاں سے ٹپکے  ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے آنکھیں بند کر کے سڑک پار کی جا سکتی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر بھی سڑک پار کرنا عذاب لگتا ہے۔

علم دوستی:کوٹلی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ لاکھوں کی آبادی ہونے کے باوجود یہاں کوئی لائبریری نہیں۔ کچھ لوگ روایت کرتے ہیں کہ کسی دور میں یہاں ایک لائبریری بھی ہوا کرتی تھی لیکن لوگوں کی علم دوستی کی وجہ سے بند ہو گئی۔ یہاں کے علم دوست حضرات اول تو یہاں جانے سے ہی پرہیز کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ لگانے سے کتابیں خرا ب نہ ہو جائیں اور خدانخواستہ علمی ورثے کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ جائے۔ اور جو لوگ کبھی بھولے بسرے یہاں کا رخ کر لیتے تھے وہ اس قدر علم دوست تھے کہ کتابوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے تھے تاکہ ساری زندگی اس علمی ورثے کی حفاظت کر سکیں۔ یوں اس علمی ورثے کی تکریم و حفاظت کے چکر میں لائبریری نے بند ہونا ہی مناسب سمجھا۔

قابل دید مقامات: یہاں کے قابل دید مقامات میں یہاں کے سرکاری دفاترسر فہرست ہیں جہاں صبح و شام سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے اور یہ مقامی سیاح لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے جائز و ناجائز طریقے سے اپنا کام نکلوانے میں لگے رہتے ہیں۔ باقی اگر شہر میں اگر کسی کو فرصت مل جائے تو وہ دریا کا رخ کرتا ہے یا شہر کے آس پاس  پہاڑوں پہ موجود ویو پوائنٹس  کا نظارہ کرتا ہے۔ دریا کے کنارے ہمارا ایک پسندیدہ پارک بھی ہوا کرتا تھا جو موجودہ سیلاب میں دریا کے غیض و غضب کا نشانہ بن گیا اور اس کی دوبارہ تعمیر تک اندیشہ ہے کہ ہمارے بال بھی سفید ہو چکے ہونگے۔ باقی آثار قدیمہ کے طور پر کچھ ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مندر بھی موجود ہیں جو زمانہ کی شکست و ریخت سے ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے اندر جانا آپ کو مہنگا پڑھ سکتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہیں وہ گرنے کیلئے آپ ہی کا انتظار نہ کر رہے ہوں۔

تعمیرات: یہاں سب کچھ زیر تعمیر ہوتا ہے۔ ایک سٹیڈیم ہے جو گزشتہ پندرہ برس سے زیر تعمیر ہے۔ کئی سڑکیں ہیں جو ہمیشہ لگتا ہے کہ اگلے سال تک مکمل ہوجائیں گی۔  بس ایک اہم پل ہے  جو روایات کے برعکس 6،7 کے عرصے میں ہی تعمیر کر لیا گیا ہے۔ اور تو اور ایک چھوٹا سا  ڈیم بھی بن  رہا ہے جو اگر مقامی ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو ایک صدی تک بھی اس کے مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔

صنعت: یہاں کی سب سے بڑی صنعت یہاں کے نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں استاد طلبہ کی درگت بناتے ہیں اور طلبہ اساتذہ کی۔ ابن سینا و رازی سے لے کر قائد اعظم تک کے نام پر سکول و کالج بنے ہیں جن کا حال دیکھ کر یقینا وہ لوگ بھی کم از کم بے ہوش ہو جاتے۔

مکمل تحریر >>

Friday 26 December 2014

اور آنا ہمارا میڈیکل کالج میں


31 دسمبر 2012 کے دن ہم دو عدد سینئرز  کے ہمراہ اپنی زندگی کے طویل ترین سفر پر روانہ ہوئے۔خوشی ہمارے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ خوش کیوں نہ ہوتے آخر ڈاکٹر بننے جارہے تھے۔گھر سے نکلتے ہی ہمارا سینہ تن گیا۔ ہم سر اٹھا کر چلنے لگے کہ آخر لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ ہم ڈاکٹر بننے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر بننا کوئی مذاق تھوڑی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ  جب ہم اگلی صبح جب ہم بہاولپور پہنچے تو ہمارے شانے جھکے اور بال بکھرے ہوئے تھے اور ہماری حالت ایسی تھی جیسے ابھی میدان جنگ سے واپس لوٹے ہیں۔

دوسرے میڈیکل کالجز میں پڑھنے والے "تجربہ کار" دوستوں نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر رکھا تھا کہ قائد اعظم میڈیکل کالج  آ کر ہماری بڑی خاطر تواضع ہونی ہے، چنانچہ ہم نے شروع سے ہی احتیاط برتنا شروع کر دی۔ جن سینئر کی مہمان نوازی سے  ہم لطف  اٹھا رہے تھے انہیں کے ساتھ  ان کے ہاسٹل "جوہر ہال" میں رہنے کی کوشش کی ۔  کبھی انہیں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ہوا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔آخر کار ہم پکڑے گئے اور وہ بھی اپنے ہم علاقہ اور ہمسفر آزاد کشمیر کے سینئرز کے ہاتھوں۔اور پھر ساری رات ہماری درگت بنتی رہی۔ آج بھی اس دن کے بارے میں سوچیں تو یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ
دیکھا جو تیر کھا کر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

پھر تو جیسے سلسلہ چل نکلا۔ اس بار علاقے ، زبان، نسل کے امتیاز کے بغیر  ہماری خاطر تواضع ہونے لگی اور ہماری حالت پنجرے میں بند کسی پنچھی کی طرح ہو گئی۔ دل بس یہی کرتا تھا کہ پنجرہ توڑ کر بھاگ کھڑے ہوں۔

ابتدا میں ہمارا ارادہ تھا کہ "مطلع" صاف ہونے تک سینئر (طلحہ) بھائی کے پاس ہی قیام کیا جائے۔ لیکن "موسم" کی صورت حال اور بگڑتے دیکھ کر ہم نے جوہر ہال سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ تب یہ معلوم نہیں تھا کہ پانچ سالوں میں سب سے یادگار دن یہی شروع کے دن ہی ہوتے ہیں جب بندہ خوف سے دبکا ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ خوف تحلیل ہو جاتا ہے ۔ بندہ فولنگ کی آگ سے کندن بن کر باہر نکلتا ہے اور ایسا  سٹوڈنٹ بن جاتا ہے جسے اپنے کالج کی روایات اور طور طریقوں کا اچھی طرح علم ہو تا ہے۔

خیر ہم نے جوہر ہال کو خدا خافظ کہاا ور اور اپنے ہاسٹل عباس منزل جانے کے لیے کمر باندھ لی۔ آنکھوں میں امیدیں لیے ہم اپنےروم میٹ کے ساتھ عباس منزل کی حدود میں داخل ہوئے۔آگے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطرناک کھنڈر ہے اور اس کے آگے اپنےپنجے پھیلائے کھڑا پرانا سا خوفناک درخت ۔ چاروں طرف گھپ اندھیراتھا بس  سامنے کھمبے پر ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی میں وہ کھنڈر کسی بھوت بنگلے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ یقینا اس کھنڈر کے باہر ہر اماوس کی رات کو بھوتوں کا رقص ہوتا ہو گا، ہم نے سوچا مگر دل کی بات کو زبان پر نہ لا سکے۔ بس کمزور سی آواز میں آواز میں اپنے روم میٹ سے پوچھا "کیا یہی ہے عباس منزل؟ یہیں رہنا پڑے گا ہمیں؟"

اس نے کھنڈر سے چند قدم دور ایک اور عمارت کی طرف اشارہ کیا جو اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ اس  رات ہم فولنگ سے خوفزدہ لڑکوں کو جوہر اور غزالی ہال  ہاسٹلز کا اپنے پاس سے گھڑا ہوا ہیبت ناک نقشہ سناتے رہے  جہاں سینئر قیام پذیر تھے اور ان کے چہروں پر اٹھتی  خوف کی لہریں دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستے رہے۔

کالج کا پہلا دن بھی بہت عجیب تھا۔ہماری حالت  ونڈر لینڈ میں کھو جانے والی ایلس کی طرح تھی۔ذہن  کے اندر "ایم بی بی ایس بہت مشکل ہے" کی تکرار ہو رہی تھی۔ تین سو سے اوپر کی کلاس  دیکھ کر ہم اور گھبرا گئے۔ اس دن کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہم اس نئی جگہ کیا کر ہے ہیں۔ہر شے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔ گھر سے نکلتے وقت جو خوشی تھی دل میں وہ  بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ دو دن میں ہی ہماری ہمت جواب دے گئی۔ موٹی موٹی کتابوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور ہم نے نئے بنائے ہوئے دوستوں کے ساتھ مل کر گھر واپس بھاگ جانے کے ارادے بنانا شروع کر دیے لیکن حالت یہ تھی کہ
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

دوسری طرف کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب والا معاملہ بھی درپیش تھا یعنی گھر واپس جاتے بھی تو کس منہ سے جاتے۔ چنانچہ اپنے تمام منصوبے مناسب وقت آنے تک موخر کر دیے۔


کالج کا ایک منظر


شروع کے دنوں میں یہ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ لیکچر ہال کدھر ہے، لیب کدھر ہے اورDH کدھر۔ بس عوام جہاں کا رخ کرتی ہم بھی چپ چاپ ان کے پیچھے وہیں چلے جاتے۔ ایک دفعہ غلطی سے ہم سیکنڈ ائر کے لیکچر ہال میں  داخل ہو گئے۔ خوش قسمتی سے ہمیں جلد ہی اپنی  اس ناقابل معافی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس  سے پہلے کہ ہماری درگت بننا شروع ہو جاتی ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

بہار تک تو جیسے تیسے وقت گزر گیا۔ چھٹیاں گزار کر واپس آئے تو ملک میں الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی اور دوسری طرف ہمارا  ہاسٹل عباس منزل بھی سیاسی رنگ میں رنگ چکا تھا۔ جدھر دیکھو لڑکے سیاسی گفتگو میں مگن۔ شیر اور بلے کے سپورٹرز کے درمیان دھواں دار بحثیں جاری رہتی تھیں چاہے ان کا کوئی نتیجہ برآمد ہو کہ نہ ہو۔ تیر کو سب نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا تھا۔ ہمارے الیکشن ہونے میں گو تین سال باقی تھے لیکن پھر بھی اس معاملے میں دخل دینا لازمی سمجھا اور ہاسٹل میں عمران خان کی وکالت شروع کر دی۔ کچھ دن بعد ہاسٹل میں یہ حالت ہو گئی کہ اگر صرف عباس منزل میں الیکشن کروائے جاتے تو  PTIآسانی سے حکومت بنا سکتی تھی۔ خیر الیکشن کے بعد تو ہماری یہ حالت ہو گئی کہ ہم منہ چھپاتے پھرتے۔ کمرے سے باہر نکلنا بھی کم کر دیا۔ ہم جہاں کا بھی رخ کرتے وہاں شیر کے سپورٹرز ہمیں چڑانے کیلئے موجود ہوتے۔یہ زہر تو ہم نے ہنس کر پی لیا مگر اصل امتحان ابھی باقی تھا۔

بہاولپور آنے سے پہلے ہمیں یہاں کی گرمی کے خوب قصیدے سنائے گئے تھے۔مگر اس وقت ہم اپنی ہی دھن میں گم تھے اس لئے لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ خیر جب گرمی شروع ہوئی تو ہمیں دن میں تارے نظر آگئے۔ ایسی گرمی نہ دیکھی نہ سنی۔ اوپر سے بجلی غائب۔ ہاسٹل میں سارا دن ہم بارش کی دعائیں مانگتے رہتے۔پھر جب ہاسٹل میں جنریٹر لگا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر جنریٹر بھی ایسا نخریلا نکلا کہ ہفتے میں چار دن چلتا اور بقیہ تین دن آرام فرماتا۔ اب جنریٹر سے کیا شکوہ۔ ادھر اپنا کولر اور پنکھا بھی گرم ہوا دینا شروع ہوگئے۔ بقول شاعر
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن  پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

عباس منزل کی ان گنت خصوصیات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہاں ہر طرح کے کیڑے مکوڑے  وافر مقدار میں موجودتھے۔ اڑنے والے کیڑے، رینگنے والے اور وہ کیڑے بھی جو کمرے میں  کوئی سوراخ نہ ہونے کہ باوجود بھی کہیں آسمان سے ٹپک پڑتے تھے۔ اوپر سے کوئی بلی بھی کسی لمحے چھلانگ لگا کر آپ کی نیند کا بیڑہ غرق کر سکتی تھی۔

خیر گرمیاں جیسی تیسی گزر ہی گئیں۔ اب اصل دن یعنی پڑھائی کے دن شروع ہو گئے۔ پھراس ہاسٹل کے (جہاں رات کو الو بولتے تھے) معمولات ہی بدل گئے۔ اکثر لوگوں کی طرح ہم نے بھی  الو کی ہی پیروی کرتے ہوئے رات کو جاگنا اور دن کو سونا شروع کر دیا یہ سوچ کر کہ کوئی وجہ تو ہے کہ مغرب میں الو کو دانش مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سب سے تیزی سے جو دن گزرے وہ پیپرز کے تھے۔ آخری دو مہینے آئے اور پلک جھپکنے میں گزر گئے۔پھر وہ دن بھی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ جی ہاں رزلٹ کا دن۔ہمارے بارے میں کچھ لوگوں کی پیشن گوئی تھی کہ دو سپلیاں تو کہیں نہیں گئیں۔ ہم گھر بیٹھے تھے کہ دوست کا میسج آیا "میں پاس ہو گیا ہوں"۔
"مبارک ہو"  ہم نے پھر پوچھا "میرا کیا بنا"۔
"تو بھی پاس ہے" گو اس نے بے یقینی سے کہا تھا مگریہ لفظ سننے کیلئے ایک سال سے ہمارے کان ترس رہے تھے۔

خیر جب ہم نے ہاسٹل میں قدم رکھا تو ہر کوئی ہمیں حیرت سے دیکھتا اور سوالیہ انداز میں پوچھتا "تم بھی پاس ہو؟''۔ ہر کسی کی آنکھوں میں بے یقینی ہوتی۔آخر کسی کو یقین کیوں نہیں آتا کہ  ہم بھی پاس ہیں۔اس "تم بھی پاس ہو" نے ابھی تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔

ایک سال پہلے ہم کالج سے بھاگنے کہ منصوبے بنا رہے تھے۔ اب اتنے مانوس ہوگئے ہیں کہ یہ اپنے گھر کی مانند لگتا ہے۔ وہ سینئر جن سے ہم خوف کھاتے تھے بڑے بھائیوں کی طرح لگتے ہیں۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس ہوگئے صیاد سے ہم
اب رہائی ملی تو مر جائیں گے۔۔۔


پس تحریر: اصل میں یہ تحریر ہم نے اپنے کالج میگزین کیلئے لکھی تھی مگر چونکہ ان دنوں ہمارے بلاگ پر تحاریر کا "کال" پڑا ہے تو ہم نے سوچا کیوں نہ ایک بار پھر انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو لیا جائے۔ آخر اس میں مضائقہ کیا ہے :)

مکمل تحریر >>

Friday 21 November 2014

سچ، محبت اور ذرا سا کینہ- خوشونت سنگھ کی آپ بیتی پر ایک تبصرہ


خوشونت سنگھ کو دنیا سے گزرے ہوئے بمشکل ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا۔ ان کی آپ بیتی کے چرچے سنے تھے مگر اس کے مطالعہ کی تحریک ان کی وصیت پڑھنے کے بعد ملی۔ اپنی وصیت میں اس شخص نے جس نے سینہء خاک پر کوئی  سو برس گزارے تھے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کی راکھ کے ایک حصے کو پاکستانی پنجاب کے ایک دور دراز گاؤں ہڈالی میں بھیج دیا جائے۔۔۔۔۔ وہ گاؤں جو اس کی جنم بھومی تھا ۔۔ جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی اور اپنے ابتدئی دن مشفق دادی کے زیر سایہ گزارے تھے۔

آپ بیتی کا نام Truth, love and little malice ہے جس کا اردو ترجمہ "سچ محبت اور ذرا سا کینہ" کے عنوان  سے کیا گیا ہے۔ نوے سال کے وسیع کینوس پر بکھرے واقعات میں زندگی کے سبھی رنگ موجود ہیں۔ کبھی سچ کا رنگ نمایاں ہوتا تو کبھی محبت کے رنگ بکھرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی کبھی کینہ ان دونوں پر غالب آ جاتا ہے (مگر ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں)۔

مجموعی طور پر یہ کئی پرتوں پر مشتمل شخصیت کی کہانی ہے، جس  میں مختلف تضادات ایسے جمع ہو کر رہ گئے ہیں کہ جیسے منفی اور مثبت ذرات مل کر ایک  ایٹم کی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ شخص جو خدا کو تو نہیں مانتا مگر اسے اپنے سکھ ہونے کے تشخص پر ناز ہے اور وہ سکھ تاریخ پر کئی کتب لکھتا ہے۔۔۔۔۔ اسے تقسیم ہند کے وقت لاہور سے افراتفری کے عالم میں بھاگنا پڑتا ہے مگر دنیا  میں وہ پاکستان کے دوست کی حثیت سے پہچانا جاتا ہے اور ہر دوسرے برس پاکستان میں آن موجود ہوتا ہے۔

خوشونت سنگھ کی زندگی کی زندگی کی کہانی پنجاب کے ایک گاؤں ہڈالی سے شروع ہوتی ہے۔ بچپن دادی کے زیر سایہ گزرتا ہے اور اپنی دادی کا غیر مرئی عکس وہ ساری عمر اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ پھر وہ وہاں سے دلی کا رخ کرتا ہے اور کچھ برس وہاں گزارنے کے بعد وکالت کی تعلیم کی خاطر لندن کیلئے رخت سفر باندھتا ہے۔۔۔ اس دوران وہ طرح طرح کے حسین حادثوں سے دو چار ہوتا ہے جن کے بغیر یہ آپ بیتی نامکمل رہتی۔۔۔ پوری کتاب میں خوشونت سنگھ نے اپنے جنسی تجربات کو بھی کھل کر بیان کیا ہے مگر ان کے بیان کے معاملے میں وہ ہمارے جوش ملیح آبادی کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکے۔

بحرحال لندن سے واپسی پر خوشونت سنگھ  کو نہ وکالت راس آتی ہے اور نہ کوئی سرکاری نوکری۔ وہ کئی برس یورپی ممالک میں ہندوستانی سفارت کار کی حثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ ہر نوکری کے بعد وہ اپنے امیر باپ کا محتاج ہوتا ہے اور خاندان والے اسے  نکھٹو کا خطاب دیتے ہیں۔

آخرکار 36 برس کی عمر میں جا کر خوشونت سنگھ کو اپنی منزل کا سراغ ملتا ہے۔ ذاتی تجربات  اور دل کے جذبات قلم سے ایک ناول کی صورت میں امڈتے ہیں دنیا جنہیں ٹرین ٹو پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔۔۔

پھر یہاں سے خوشونت سنگھ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ صحافت و ادب کی وادیء خارزار میں قدم رکھتا ہے اور پھر یہ سفر اس کی زندگی کے سفر کے ساتھ ہی اختتام پزیر ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ ہندوستان کے کئی اخبارات کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف اس کے قلم سے کئی ادبی شاہکار جنم لیتے ہیں۔ وہ سکھوں کے مذہبی صحائف کا پنجابی سے  انگریزی ترجمہ  کرتا ہے تو دوسری طرف اقبال کی شاعری کے سحر میں مبتلا ہوکر ان کی شاہکار نظموں شکوہ اور جواب  شکوہ کو بھی انگریزی کے قالب میں ڈھالتا ہے۔۔۔۔ یوں خوشونت سنگھ کی شخصیت  کئی زبانوں اور تہذیبوں کا ایک حسین سنگم بن جاتی ہے۔

اپنی خدمات کے صلے میں اسے ہندوستان کا اعلی ترین اعزاز پدم بوشن بھی ملتا ہے (جسے وہ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے دوران واپس کر دیتا ہے) اور  وہ  ہندوستان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا رکن بھی بنتا ہے۔۔۔ ان دنوں اقتدار کی رسا کشی اور کرسی کی خاطر کشمکش کو بھی مصنف نے کھل کر بیان کیا ہے۔ گاندھی/نہرو خاندان کی اندرونی سیاست کے متعلق کئی انکشافات بھی اس میں  شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ حصہ جس میں اندرا گاندھی اور مانیکا   گاندھی (یعنی ساس بہو) کے درمیان ہونے والے مشہور زمانہ جھگڑے کا تذکرہ کیا گیا ہے پڑھنے کے قابل ہے کیوں کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہندوستانی سیاست میں اس حادثے کی تلخی ماند نہیں پڑی۔

خوشونت سنگھ کا پاکستان سے بھی گہرا تعلق  رہا ہے جس میں سے کئی یادوں کو انہوں نے اس کتاب کا  حصہ بنایا ہے۔ اردو والوں کے لئے بھی وہ اجنبی نہیں کیونکہ ان کی زندگی میں ہی ان کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی تھیں اور وہ خود بھی اردو میں مہارت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب بیسویں صدی کے جنوبی ایشیا پر ایک اہم دستاویز کی حثیت رکھتی ہے۔ اسے نگارشات پبلشرز لاہور نے شایع کیا ہے اور ان کی دوسری ترجمہ شدہ کتب کی طرح یہ بھی قابل تحسین ہے!!!
مکمل تحریر >>

Wednesday 20 August 2014

مودی، مذاکرات اور امن کا تماشا


بھارتی حکومت نے حسب معمول کچھ دن بعد پاکستان کے ساتھ  خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ہونے مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے۔  ہمیشہ کی طرح اس  کا ملبہ پاکستان کے سر پر ڈالا گیا ہے کہ  چونکہ پاکستان نے کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کر کے ان کے اندرونی معاملات میں دخل دیا ہے اس لیے تب تک مذاکرات نہیں ہو سکےجب تک  کہ پاکستان اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہ کر لے۔

وہ بھی ایک دور تھا جب بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی مذاکرات کے لئے بس پر سوار ہو کے پاکستان آئے تھے۔ تب بھی وہاں BJP کی حکومت تھی اور ہندووتا کا ایجنڈا ان کے منشور میں شامل تھا لیکن واجپائی جی کو یہ بات نہ سوجھی تھی کہ پاکستان علیحدگی پسندوں ملاقات کر کے انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا مرتکب ہو رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان پہلے دراندازی بند کرائے پھر مذاکرات کریں گے۔

 مودی جی کی نظریں مگر کچھ زیادہ ہی دوربین ہیں شاید اسی لیے وہ اتنے دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ورنہ وہ مذکرات میں روڑے اٹکانے کیلئے کوئی اور اچھا سا بہانہ بھی کر سکتے تھے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اب ہمارے پاس آلو پیاز ختم ہو گئے ہیں اس لئے ہم اس معاملے میں پاکستان  کی کوئی مدد نہیں کر  سکتے اس لیے پاکستانی پہلے اپنے ملک میں آلو پیاز پیدا کرے اور پھر مذاکرات کی ٹیبل پہ آئیں۔  اس سے کم از کم ایک دہائی  تک کوئی مذاکرات کا نام نہ لیتا۔ خیر لوگ پریشان نہ ہوں۔۔۔ مذاکرات ختم ہونے سے آلو پیاز کی ترسیل پر  کوئی اثر نہیں پڑے گا ایسے ہی جیسے اس سے پاکستانی ہائی کمیشنر کی اور علیحدگی پسندوں کی ملاقاتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

اسی شور شرابے میں انڈیا کے ایک معروف میڈیا گروپ کا ٹی وی چینل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی میڈیا گروپ ہے جس  کے ساتھ مل کر ہمارے جنگ/جیو نے "امن کی آشا" کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ہم نے سوچا  کہ امن کی آشا والے  امن کے لڈو بانٹیں نہ بانٹیں کم از کم مذاکرات کے تعطل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور بولیں گے۔ مگر وہاں پاکستان پر اس قدر کیچڑ  اچھالا جا رہا تھا کہ چینل کے اینکرز کے چہرے بھی اس آلودہ نظر آ رہے تھے۔



امن کا تماشہ دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوا کہ یہ ہندوستان اٹل بہاری واجپائی  کا ہندوستان نہیں اور نہ ہی مرار جی ڈیسائی کا ہندوستان۔۔۔ یہ مودی کا ہندوستان ہے جہاں سیکولر چہرے بھی زعفرانی قشقوں سے داغدار ہیں اور ان کی زبانوں سے ایسا زہر نکلتا ہے کہ  ان میں اور آر ایس ایس کے غنڈوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

شاید اسی لیے پاکستان امن کے لئے ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو انڈیا دس قدم  پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ نئی نئی معاشی ترقی کا غرور ہے یا مستقبل  کے عزائم کی طرف ہلکا سا اشارہ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس ساری صورت حال سے کم از کم بھارتی حکمرانوں کی نیت کھل کر سامنے آ رہی ہے۔

مکمل تحریر >>