Pages

Thursday 18 February 2016

ہندوستان میں طلباء کی صفوں سے اٹھتی نئی آوازوں کی داستان اور ہم


پاکستان کے بحر سیاست میں آج کل ایک سکوت  طاری ہے لیکن ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں آج کل ہمت اور سچ کی ایک نئی داستاں  لکھی جارہی ہے۔ ہندوستان  کے دارالحکومت دہلی سے ایک طوفان اٹھا ہے جس نے  ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں کی سیاسی فضا  میں بھی ہلچل مچا دی ہے ہے اور حب الوطنی اور غداری جیسے نازک معاملات پر ایک نئی بحث کو جنم دیا  ہے۔

اس داستان کا آغاز ہوتا ہے دہلی کی شہرہ آفاق جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے جو دہائیوں سے بائیں بازو کی قوتوں کا گڑھ رہا ہے۔9 فروری کے دن یونیورسٹی کے طلباء کے ایک گروہ نے افضل گرو کی پھانسی کے خلاف ایک پروگرام رکھا۔ پروگرام  کا عنوان تھا: افضل گرو اور مقبول بھٹ کے عدالتی قتل کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک شام۔ ہندو انتہا پرست بی جے پی کے سٹوڈنٹ ونگ کو جب اس کی بھنک پڑی تو انہوں نے اسے بھرپور طریقے سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں دونوں گروہوں کے درمیان تصادم ہوتے ہوتے بچا۔ اسی گرما گرمی میں کچھ طلباء نے کشمیر کی آزادی کے لئے نعرے لگانا شروع کر دیے اور اس واقعے کی ویڈیو زپورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

بی جے پی جو کہ پہلے ہی یونیورسٹی کیمپس پر اپنی اجارہ داری چاہتی ہے اس کے ہاتھ ایک موقع آ گیا تھا۔ دائیں بازو کے ٹی وی اینکرز اور ہندوستان کے میڈیا کے ایک بدمست حصے نے ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ کیچڑ سے خود بھی ان کے چہرے آلودہ ہو گئے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار سے لے کے کشمیریوں کی حمایت کرنے والےعمر خالد تک کسی کو نہیں بخشا گیا۔ کسی نے ان  پر ملک سے غداری کا الزام لگایا تو کسی نے ان سب کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ شاید ہی کوئی الزام یا گالی بچی ہو گی جن سے وہ فیض یاب نہ ہوئے ہوں۔ حتی کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بی جے پی کے رہنماؤں اور  ہمدروں نے ان طلباء کی مادر علمی جواہرلال نہرو یونیورسٹی کو بند کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔


اور تو اور کچھ ٹی وی چینلز نے تو ان سٹوڈنٹ لیڈرز کا تعلق لشکر طیبہ اور جیش محمد سے بھی جوڑ دیا جس پر یقینا بھاری ایجنسیاں را اور سی بی آئی بھی اپنی دکانیں بند کرنے کا سوچ رہی ہونگی  کہ ہمارا کیا فائدہ جب ان چینلز کے جاسوس ہم سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔مگر ان طلباء کی ہمت کی بھی داد دینی پڑے کی کہ انہوں نے اس سنگ باری ء دشنام و ملامت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر فورم پر اپنی رائے پہ ڈٹ رہے  اور کہیں بھی کشمیر کی آزادی کے بارے میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ۔ یہاں تک کہ کنہیا کمار میڈیا پر اپنی حس مزاح کا بھی بھرپور استعمال کرتے رہے۔ ایک اینکر  نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہندوستان سے آزادی چاہئے جو آپ یہ نعرے لگا رہے ہیں۔ جواب  دیا نہیں ، غریبی سے آزادی چاہئے، ظلم اور جہالت سے آزادی چاہئے۔ ایک اور موقع پر بی جی پی کے ایک عہدیدار نے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ  کے طور پر ان سے "بھارت ماتا کی جے" کا نعرہ لگانے کا مطالبہ کیا۔ جس کے جواب میں موصوف نے "بھارت کی ہر ماتا کی جے، بھارت کے ہر پتا کی جے" کا نعرہ لگا کر ان کا منہ بند کر دیا۔


بھارتی صحافی شیکھر گپتا کا بھارتی میڈیا کی پھرتیوں پر تبصرہ

اگلے دن کنہیا کمار سمیت کئی طلباء کو گرفتار کر لیا گیا۔ کنہیا کمار کو عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت میں لے جاتے ہوئے پولیس کی موجودگی میں انتہا پرست وکلاء کے ایک گروہ نے ان پر تشدد کیا اور ایسا ہی کچھ عدالت سے واپسی پر بھی ہوا۔ مگر اس تشدد کے باوجود کنہیا کمار نے  بی جے پی، آر ایس ایس اور اس کے حامی میڈیا کے سامنے سرتک نہ جھکایا۔ فی الحال وہ دو ہفتے تک پولیس کی حراست میں رہیں گے مگر  ان کے جیل جانے کے بعد بھی ان کے خلاف طوفان بدتمیزی نہیں رکا۔

طالبعلم لیڈر کنہیا کمار پر عدالت کے باہر تشدد

جہاں ایک طرف ہندوستان کی ساری طاقتیں ان چند طلباء کے سامے صف آراء ہیں وہاں ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت میں بھی اٹھ آیا ہے۔ بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے کنہیا کمار کے گھر کا دورہ کیاہے اور کنہیا کمار کے بیان کو اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر  اس کی مکمل حمایت کی ہے۔ راہول گاندھی سے لے کر اروند کجریوال تک بے شمار سیاستدانوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کے ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنے کے خواب کی تعبیر میں ابھی کئی رکاوٹیں باقی ہے۔

مگر اس سارے معاملے نے ہندوستان میں ایک نئی  بحث کو جنم دیا کہ غدار وطن کی آخر تعریف کیا ہے۔ کیا ریاست کے مسلط کردہ درسی کتب میں پڑھائے جانے والے آدھے سچ آدھے جھوٹ  کو نہ ماننا غداری ہے؟ کیا ملک کے کچلے ہوئے لوگوں کے بارے میں آواز اٹھانا غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ اور وہ کونسا مقام ہے جہاں اظہار رائے کی آزادی کی سرحدیں ختم ہوتی ہے اور غداری کا مقام شروع ہوتا ہے؟

چلیے اب ہندوستان سے واپس پاکستان لوٹ آتے ہیں۔ بلوچستان میں آج بھی ہر روز لاشیں گرتی ہیں۔ مگر ہم میں سے کس میں ہمت ہے کہ اس بارے میں بات کرے اور کس میں ہمت ہے کہ اس بارے میں سنے۔ ہم تو بم دھماکوں میں مرنے والے بے گناہ لوگوں کو شہید کہنے سے پہلے بھی دس بار سوچتے ہیں، غلط کو غلط کہنا تو دور کی بات ہے۔ ہمارے ہاں درجنوں یونیورسٹیاں  اور درجنوں طلباء تنظیمیں ہیں۔ مگر  کہیں بھی طلباء میں ہمت ہے نہ قابلیت کہ وہ معاشرے کو درپیش حقیقی مسائل پہ آواز بلند کرے۔ ہم لوگ نہ پڑھائی میں کچھ خاص کر پاتے ہیں نہ غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمارا کوئی کردار ہے۔ لے دے کے ہم اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے لئے گھنٹوں بحث کرتے ہیں۔ ان کے لیڈروں کو فرشتہ ثابت کرتے ہیں اور بس ہماری دوڑ یہیں تک ہے۔ ایسا لگتا کے ہم کسی خول میں بند ہیں جس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ پورے ملک میں ایک بھی کنہیا کمار نہیں جو کہ مظلوموں کے لیے آواز اٹھا سکے اور پھر ہم تاسف سے کہتے ہیں کہ ملک ہندوستان سے بہت پیچھے رہ گیا ہے!!

2 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔