Pages

Sunday 13 April 2014

زندہ رہنا ضروری ہے

یہ دو  دن پہلے کی بات ہے۔ میں اپنے روم میٹ کے ساتھ سرکلر روڈ پر مٹر گشت کر رہا تھا جب فون پہ یہ اندوہ ناک خبر  ملی کہ ہمارے ایک نہایت قریبی سینئر نے ٹرین کے آگے آ کر خودکشی کر لی ہے۔ایک لمحے کے لئے میری سانسیں ہی رک گئیں۔  ہم بھاگتے ہوئے ہسپتال کی  ایمرجنسی میں پہنچے جہاں ان کی لاش دیکھ کر ہمارے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔کل تک ہم جس شخص کو ہنستا کھیلتا دیکھ رہے  تھے آج وہ ہمارے سامنے  بے حس و حرکت پڑا تھا۔بہت کم لوگ اتنے ہنس مکھ اور اچھے  اخلاق والے ہوتے ہیں۔ یقین نہیں آتا ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کہیں سے وہ نکل آئیں گے اور اپنے  مخصوص انداز میں کہیں گے کہ 'بچے کیسے ہو'۔  مگر وہ لب اب خاموش تھے ۔ وہ ہاتھ جنہوں نے کچھ دن پہلے فٹ بال ٹورنامنٹ جیتنے پر بڑے فخر سے ٹرافی اٹھائی تھی   بے جان پڑے  تھے اور وہ مسکراہٹ جسے دیکھ کر اداس چہرے بھی کھل اٹھتے معدوم ہو چکی تھی۔

کاش انہوں نے ایک بار بھی یہ سوچا ہوتا کہ
زندگی کیا ہے،  جاننے کے لئے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے

آج ہر طرف سوگ کی فضا ہے۔ سب فیس بک پر ان کی یاد میں دھرا دھر پوسٹیں کر رہے ہیں۔ ان کی تصویریں اپلوڈ کر رہے ہیں۔کچھ دن بعد ایک نیا سورج نکلے گا اور لوگ سب کچھ بھول بھال کر اپنے کاموں میں لگ جائیں گے۔ کیونکہ ایک انسانی جان کی تو کوئی قیمت ہی  نہیں۔ نہ ہی یہ خودکشی کا پہلا واقعہ ہے نہ ہی اس بات کا کوئی امکا ن ہے کہ یہ آخری ثابت ہو گا۔ دو سال پہلے میرے ایک کلاس فیلو نے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کا مسکراتا چہرہ آج بھی میرے سامنے جگمگاتا ہے۔مرنے والے کو سب یاد کر تے ہیں مگر کوئی  ان اسباب پر غور نہیں کرتا جن کی وجہ سے اچھا  خاصا بندہ ایسے مشکل فیصلے لینے پر  مجبور ہو جاتا ہے۔ہر کوئی یہ راگ الاپتا ہے کہ خودکشی حرام موت ہے لیکن کیا وہ معاشرہ حلالی ہے جو اچھے بھلے انسان کو مایوسی کے اس مقام تک لے جاتا ہے جہاں اس صرف ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے۔ یعنی موت۔



کہتے ہیں کہ کسی معاشرے کے بارے  میں آپ اگر معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ترقی کی طرف جا رہا ہے کہ تنزلی کی طرف ، تو وہاں خودکشیوں کی تعداد کو دیکھیں۔ آپ پاکستان کا کوئی بھی اخبار اٹھا لیجئے۔ کہیں کوئی چار بچوں کی ماں بچوں سمیت نہر میں کود رہی ہوگی۔ کہیں کوئی طالبعلم اس کھوکھلے تعلیمی نظام کی بھینٹ چڑھ رہا ہوگا۔ کہیں کوئی لڑکی پسند کی شادی نہ ہونے پر پل سے نیچے کود رہی ہو گی اور   کہیں کوئی مزدور یا کسان اس جاگیردارانہ نظام کے منہ پر طمانچہ رسید  کر کے اگلی دنیا کے لئے رخت سفر باندھ رہا ہوگا۔ خودکشیوں کا یہ  بڑھتا ہوا سلسلہ ہماری 'ترقی' کی زندہ مثال ہے۔ شاید یہ وہی ترقی ہے جس کے بلند وبانگ دعوے ہمارے حکمران کرتے ہیں۔

اسی لئے جب کوئی شخص حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود اپنی جان لیتا ہے تو وہ خود اکیلا اپنی موت کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ اس جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ حالات معاشرے کے ہی پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟۔

8 comments:

جوانی پِٹّا نے لکھا ہے کہ

بہت خوب۔ آپ نے بھی کمنٹ ماڈریٹر لگایا ھوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کی وجہ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرسکنے کی قوت کی کمی نہیں ھوگی۔
اپنی پوسٹ کے فونٹ کو بڑا کریں۔

جوانی پِٹّا نے لکھا ہے کہ

خودکشیاں معاشرے کی ترقی نہیں، بلکہ فرد کے جذباتی پروفائل کو ظاہر کرتی ہے۔ جو شریف کا بچہ اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرسکتا، وہ اس لائق ہے کہ مذید اس دنیا میں نہ رہے۔ دنیا میں جینے کی جنگ کا اکثر حصہ نفس پر قابو پانے کی کوشش ھوتی ہے۔

hamza niaz نے لکھا ہے کہ

بھائی بلاگنگ کی دنیا میں نیا ہوں۔ مجھے اتنا بھی معلوم نہیں کمنٹ ماڈریشن کیا ہے:) فونٹ کا کچھ کرتا ہوں۔

hamza niaz نے لکھا ہے کہ

جہاں تک میری رائے ہے خودکشی صرف ایک شخص کی ذہنی کشمکش کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے بہت سے حالات کارفرما ہوتے ہیں۔ معاشرہ ان حالات کو پیدا کرنے میں معاون ہو تو پھر معاملات اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ باقی exceptions تو پھر ہر جگہ ہوتی ہیں۔

محمد سعد نے لکھا ہے کہ

سوچ رہا ہوں کہ اس شخص نے کتنا زبردست نقاب اوڑھے رکھا کہ آخر تک کسی کو پتہ بھی نہیں چلنے دیا۔ اندر ہی اندر کیا کچھ برداشت کرتا رہا جو کبھی کسی کو بتایا ہی نہیں۔ نہ جانے کتنا بوجھ اٹھاتا رہا کہ اس عمر میں ہی اس کی ہمت جواب دے گئی۔

حمزہ نیاز نے لکھا ہے کہ

تبصرے کا شکریہ سعد بھائی۔ انسان کی شخصیت کی اتنی پرتیں ہیں کہ اسے سمجھنا بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔۔۔

Ammar IbneZia نے لکھا ہے کہ

لوگ عموماً خودکشی کو آسان فیصلہ قرار دیتے ہیں کہ زندگی کی پریشانیوں سے بچنے کی آسان راہ لگتی ہے۔ لیکن خودکشی کا فیصلہ اتنا بھی آسان نہیں ہوتا ورنہ خودکشی کی شرح کہیں زیادہ ہوتی۔ انسان جب بے بسی اور مایوسی کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے اور نجات کی کوئی دوسری راہ نہیں پاتا تو وہ لاچاری اور مجبوری میں یہ قدم اٹھاتا ہے۔ خدا جانے، آپ کے سینئر کے ساتھ کیا مسائل رہے ہوں گے۔

حمزہ نیاز نے لکھا ہے کہ

عمار بھائی صحیح کہا آپ نے۔ خودکشی تو آخری چیز ہے۔جب ہر تدبیر ناکام ہو جائے تو پھر اس کی باری آتی ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔