Pages

Friday 21 November 2014

سچ، محبت اور ذرا سا کینہ- خوشونت سنگھ کی آپ بیتی پر ایک تبصرہ


خوشونت سنگھ کو دنیا سے گزرے ہوئے بمشکل ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا۔ ان کی آپ بیتی کے چرچے سنے تھے مگر اس کے مطالعہ کی تحریک ان کی وصیت پڑھنے کے بعد ملی۔ اپنی وصیت میں اس شخص نے جس نے سینہء خاک پر کوئی  سو برس گزارے تھے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کی راکھ کے ایک حصے کو پاکستانی پنجاب کے ایک دور دراز گاؤں ہڈالی میں بھیج دیا جائے۔۔۔۔۔ وہ گاؤں جو اس کی جنم بھومی تھا ۔۔ جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی اور اپنے ابتدئی دن مشفق دادی کے زیر سایہ گزارے تھے۔

آپ بیتی کا نام Truth, love and little malice ہے جس کا اردو ترجمہ "سچ محبت اور ذرا سا کینہ" کے عنوان  سے کیا گیا ہے۔ نوے سال کے وسیع کینوس پر بکھرے واقعات میں زندگی کے سبھی رنگ موجود ہیں۔ کبھی سچ کا رنگ نمایاں ہوتا تو کبھی محبت کے رنگ بکھرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی کبھی کینہ ان دونوں پر غالب آ جاتا ہے (مگر ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں)۔

مجموعی طور پر یہ کئی پرتوں پر مشتمل شخصیت کی کہانی ہے، جس  میں مختلف تضادات ایسے جمع ہو کر رہ گئے ہیں کہ جیسے منفی اور مثبت ذرات مل کر ایک  ایٹم کی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ شخص جو خدا کو تو نہیں مانتا مگر اسے اپنے سکھ ہونے کے تشخص پر ناز ہے اور وہ سکھ تاریخ پر کئی کتب لکھتا ہے۔۔۔۔۔ اسے تقسیم ہند کے وقت لاہور سے افراتفری کے عالم میں بھاگنا پڑتا ہے مگر دنیا  میں وہ پاکستان کے دوست کی حثیت سے پہچانا جاتا ہے اور ہر دوسرے برس پاکستان میں آن موجود ہوتا ہے۔

خوشونت سنگھ کی زندگی کی زندگی کی کہانی پنجاب کے ایک گاؤں ہڈالی سے شروع ہوتی ہے۔ بچپن دادی کے زیر سایہ گزرتا ہے اور اپنی دادی کا غیر مرئی عکس وہ ساری عمر اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ پھر وہ وہاں سے دلی کا رخ کرتا ہے اور کچھ برس وہاں گزارنے کے بعد وکالت کی تعلیم کی خاطر لندن کیلئے رخت سفر باندھتا ہے۔۔۔ اس دوران وہ طرح طرح کے حسین حادثوں سے دو چار ہوتا ہے جن کے بغیر یہ آپ بیتی نامکمل رہتی۔۔۔ پوری کتاب میں خوشونت سنگھ نے اپنے جنسی تجربات کو بھی کھل کر بیان کیا ہے مگر ان کے بیان کے معاملے میں وہ ہمارے جوش ملیح آبادی کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکے۔

بحرحال لندن سے واپسی پر خوشونت سنگھ  کو نہ وکالت راس آتی ہے اور نہ کوئی سرکاری نوکری۔ وہ کئی برس یورپی ممالک میں ہندوستانی سفارت کار کی حثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ ہر نوکری کے بعد وہ اپنے امیر باپ کا محتاج ہوتا ہے اور خاندان والے اسے  نکھٹو کا خطاب دیتے ہیں۔

آخرکار 36 برس کی عمر میں جا کر خوشونت سنگھ کو اپنی منزل کا سراغ ملتا ہے۔ ذاتی تجربات  اور دل کے جذبات قلم سے ایک ناول کی صورت میں امڈتے ہیں دنیا جنہیں ٹرین ٹو پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔۔۔

پھر یہاں سے خوشونت سنگھ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ صحافت و ادب کی وادیء خارزار میں قدم رکھتا ہے اور پھر یہ سفر اس کی زندگی کے سفر کے ساتھ ہی اختتام پزیر ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ ہندوستان کے کئی اخبارات کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف اس کے قلم سے کئی ادبی شاہکار جنم لیتے ہیں۔ وہ سکھوں کے مذہبی صحائف کا پنجابی سے  انگریزی ترجمہ  کرتا ہے تو دوسری طرف اقبال کی شاعری کے سحر میں مبتلا ہوکر ان کی شاہکار نظموں شکوہ اور جواب  شکوہ کو بھی انگریزی کے قالب میں ڈھالتا ہے۔۔۔۔ یوں خوشونت سنگھ کی شخصیت  کئی زبانوں اور تہذیبوں کا ایک حسین سنگم بن جاتی ہے۔

اپنی خدمات کے صلے میں اسے ہندوستان کا اعلی ترین اعزاز پدم بوشن بھی ملتا ہے (جسے وہ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے دوران واپس کر دیتا ہے) اور  وہ  ہندوستان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا رکن بھی بنتا ہے۔۔۔ ان دنوں اقتدار کی رسا کشی اور کرسی کی خاطر کشمکش کو بھی مصنف نے کھل کر بیان کیا ہے۔ گاندھی/نہرو خاندان کی اندرونی سیاست کے متعلق کئی انکشافات بھی اس میں  شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ حصہ جس میں اندرا گاندھی اور مانیکا   گاندھی (یعنی ساس بہو) کے درمیان ہونے والے مشہور زمانہ جھگڑے کا تذکرہ کیا گیا ہے پڑھنے کے قابل ہے کیوں کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہندوستانی سیاست میں اس حادثے کی تلخی ماند نہیں پڑی۔

خوشونت سنگھ کا پاکستان سے بھی گہرا تعلق  رہا ہے جس میں سے کئی یادوں کو انہوں نے اس کتاب کا  حصہ بنایا ہے۔ اردو والوں کے لئے بھی وہ اجنبی نہیں کیونکہ ان کی زندگی میں ہی ان کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی تھیں اور وہ خود بھی اردو میں مہارت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب بیسویں صدی کے جنوبی ایشیا پر ایک اہم دستاویز کی حثیت رکھتی ہے۔ اسے نگارشات پبلشرز لاہور نے شایع کیا ہے اور ان کی دوسری ترجمہ شدہ کتب کی طرح یہ بھی قابل تحسین ہے!!!
مکمل تحریر >>