بھارتی حکومت نے حسب معمول کچھ دن بعد پاکستان کے ساتھ خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ہونے مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس کا ملبہ پاکستان کے سر پر ڈالا گیا ہے کہ چونکہ پاکستان نے کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کر کے ان کے اندرونی معاملات میں دخل دیا ہے اس لیے تب تک مذاکرات نہیں ہو سکےجب تک کہ پاکستان اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہ کر لے۔
وہ بھی ایک دور تھا جب بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی مذاکرات کے لئے بس پر سوار ہو کے پاکستان آئے تھے۔ تب بھی وہاں BJP کی حکومت تھی اور ہندووتا کا ایجنڈا ان کے منشور میں شامل تھا لیکن واجپائی جی کو یہ بات نہ سوجھی تھی کہ پاکستان علیحدگی پسندوں ملاقات کر کے انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا مرتکب ہو رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان پہلے دراندازی بند کرائے پھر مذاکرات کریں گے۔
مودی جی کی نظریں مگر کچھ زیادہ ہی دوربین ہیں شاید اسی لیے وہ اتنے دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ورنہ وہ مذکرات میں روڑے اٹکانے کیلئے کوئی اور اچھا سا بہانہ بھی کر سکتے تھے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اب ہمارے پاس آلو پیاز ختم ہو گئے ہیں اس لئے ہم اس معاملے میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے اس لیے پاکستانی پہلے اپنے ملک میں آلو پیاز پیدا کرے اور پھر مذاکرات کی ٹیبل پہ آئیں۔ اس سے کم از کم ایک دہائی تک کوئی مذاکرات کا نام نہ لیتا۔ خیر لوگ پریشان نہ ہوں۔۔۔ مذاکرات ختم ہونے سے آلو پیاز کی ترسیل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ایسے ہی جیسے اس سے پاکستانی ہائی کمیشنر کی اور علیحدگی پسندوں کی ملاقاتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اسی شور شرابے میں انڈیا کے ایک معروف میڈیا گروپ کا ٹی وی چینل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی میڈیا گروپ ہے جس کے ساتھ مل کر ہمارے جنگ/جیو نے "امن کی آشا" کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ہم نے سوچا کہ امن کی آشا والے امن کے لڈو بانٹیں نہ بانٹیں کم از کم مذاکرات کے تعطل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور بولیں گے۔ مگر وہاں پاکستان پر اس قدر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا کہ چینل کے اینکرز کے چہرے بھی اس آلودہ نظر آ رہے تھے۔
امن کا تماشہ دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوا کہ یہ ہندوستان اٹل بہاری واجپائی کا ہندوستان نہیں اور نہ ہی مرار جی ڈیسائی کا ہندوستان۔۔۔ یہ مودی کا ہندوستان ہے جہاں سیکولر چہرے بھی زعفرانی قشقوں سے داغدار ہیں اور ان کی زبانوں سے ایسا زہر نکلتا ہے کہ ان میں اور آر ایس ایس کے غنڈوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
شاید اسی لیے پاکستان امن کے لئے ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو انڈیا دس قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ نئی نئی معاشی ترقی کا غرور ہے یا مستقبل کے عزائم کی طرف ہلکا سا اشارہ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس ساری صورت حال سے کم از کم بھارتی حکمرانوں کی نیت کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
2 comments:
کیسے بھول جاتے ہیں بھارت کا ایسا روئیہ ، وہ لوگ جو بھارت سے دوستی کی بات کرتے ہیں اور بھارتی تہذیب سے متاثر ہیں ؟
دوستی اچھی چیز جب تک کہ وہ برابری کی سطح پر ہو۔۔۔ باقی بین الاقوامی تعلقات میں بس مفادات ہوتے ہیں۔۔ دوستی کا لفظ بس مشترکہ مفادات پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔