انٹر نیشنل سپیس سٹیشن
خلا بازی کا شوق ہمیں بچپن سے رہا ہے۔ اس وقت سے جب پی ٹی وی پر سپیس 2000 نامی ڈرامہ لگا کرتاتھا۔ اتنا انتظار ہم آج کل بجلی آنے کا نہیں کرتے جتنا ہم سارا ہفتہ سپیس 2000 کا کرتے تھے۔اس وقت ہماری زندگی کا ایک ہی مشن تھا۔خلا کی وسعتوں کو کھنگالنا اور عجیب و غریب شکل والی غیر زمینی مخلوق سے جا کر جنگ کرنا۔رات کو ہمارے خوابوں میں لمبے سیاہ جسم اور انگاروں کی طرح چمکتی سرخ آنکھوں والی مریخی مخلوق آتی ۔اور دن کے اجالے میں جاگتی آنکھوں کے خواب دیکھنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہمارا یہ خلا نوردی کا شوق اس وقت ٹھنڈا پڑا جب ہماری نظر سے ادا جعفری کا یہ شعر گزرا کہ
ویرانیاں دلوں کی کچھ کم نہ تھیں ادا
کیا ڈھوندنے گئے مسافر خلاؤں میں
تب سے ہم دلوں کی ویرانیوں کو جاننے کی جستجو میں ہیں( غلط مت سمجھیے گا۔اس سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا اور انسانی جسم ،جس میں دل بھی آتا ہے، کی جستجو میں لگ گئے:ڈ)۔ خیر اس کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ ہم اپنے خلا نودی کے شوق کو بھول گئے ہیں۔ اسی لئے ہم اپنی بلاگنگ کا "افتتاح" انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کے بارے لکھتے ہوئے کر رہے ہیں۔
آپ نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی آسکر انعام یافتہ فلمGRAVITY دیکھی ہوگی جس میں انسان کی خلا میں جدوجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی فلم کے کئی مناظر میں انسانی ترقی کے شاہکار 'انٹرنیشنل سپیس سٹیشن ' یا ISSکو بھی دکھایا گیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ISSآخر ہے کیا۔
انٹرنیشنل سپیس سٹیشن خلا میں معلق ایک ایسی قسم کا جدید ترین مصنوعی سیارہ ہے جس میں انسانوں کا مستقل قیام ممکن ہے ۔یہ پہلی بار 1998 کو خلا میں چھوڑا گیا۔ اس کا انتظام مشترکہ طور پر امریکا اور روس کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ اس میں ایک خاص قسم کے خلائی ماحول میں سائنس کے مختلف شعبہ جات سے متعلق تجربات کیے جاتے ہیں۔ سپیسسٹیشن خلانوردوں کو اس چیز کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ خلا میں رہ کر کام کر سکیں اور نت نئے تجربات کر سکیں۔
سپیس سٹیشن کے اندر کا ایک منظر
سپیس سٹیشن کا مدار زمین سے 400 کلومیٹر بلندی پہ واقع ہے یعنی یہ زمیں سے 400 کلومیٹر بلندی پر رہ کر زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ اپنی توانائی سورج سے بڑے سولر پینلز کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اس کی تعمیر اور دیکھ بھال پر اب تک ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔ خلادانوں کو سپیس سٹیشن پر بھیجنے اور پھر واپسی کے لیے سپیس شٹلز یا خلائی گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی قیمت ایک ارب ڈالر سے کم نہیں ہوتی۔ یوں یہ انسانی تاریخ کا سب سے مہنگا سائنسی منصوبہ ہے۔
اس سے پہلے بھی مختلف ممالک نے خلا میں اپنے سپیس سٹیشن بھیجے تھے جیسا کہ امریکہ کا 'سکائی لیب'sky lab اور روس کا 'میرmir' مگرISSکی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں بہت سےممالک کا ہاتھ ہے۔
سپیس سٹیشن کے اندر کا ایک منظر |
سپیس سٹیشن پر دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے اور مختلف زبانیں بولنے والے خلادان قیام کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد امریکی اور روسی افراد کی ہے۔اس کے علاوہ جاپان، کنیڈا اور مختلف یورپی ممالک بھی اس پر اپنا حق رکھتے ہیں۔ سپیس سٹیشن میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والوں میں روس سے تعلق رکھنے والے' سرجئی کریکالیو' کا نام سر فہرست ہے جنہوں نےخلا میں 803 دن گزار کر عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔
ایک دور میں ہم یہ سب سائنس فکشن فلموں میں دیکھا کرتے تھے لیکن انسان کی ذہانت اور محنت نے یسے بھی ممکن کر دکھایا ہے۔سپیس سٹیشن انسانی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم علم اور جدوجہد کو مشعل راہ بنا لیں تو پھر ہمارے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔
10 comments:
"آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے"۔
بلاگ اور صاحب بلاگ دونوں کے لیے
شکریہ جی۔ آپ کی دعاؤں سے انجام بھی اچھا ہی ہو گا۔
ہت عمدہ تعارف اور ابتداء ہے بہت خوشی ہوئی ایک نئے بلاگ کا پڑهکر .اللہ ایسے ہی ا چهے ا چهے .معلوماتی تحریر پڑهنے ملتے رہیگے .
بلاگنگ کی دنیا میں خوش آمدید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے آپ سے کچھ سیکھنے کو ملے گا
شاعر سے معذرت کے ساتھ
گر تو می خواہی کہ بامی "بلاگر شریف"
می نویس و می نویس و می نویس :)
حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ کچھ سیکھنے کے ارادے کے ساتھ ہی اردو بلاگستان میں انٹری ماری ہے میں نے۔
بہت بہت شکریہ محترمہ۔ امید ہے آپ ایسے ہی حوصلہ بڑھاتی رہیں گی۔
بلاگ شروع کرنے پر ڈھیروں مبارک باد، امید ہے کہ خلا کے بعد اب ستاروں اور سیاروں کے بارے میں بھی جاننے کو بہت کچھ ملے گا
بلاگنگ کی دنیا میں خوش آمدید۔ ابتداء بہت خوب ہے، خلائی اسٹیشن کے بارے میں پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ شکریہ۔ لکھتے رہیئے۔
شکریہ سلیم بھائی۔۔۔
بھائی ستاروں سے بھی آگے جائیں گے:-) حوصلہ بڑھانے کا شکریہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔