خوشونت سنگھ کو دنیا سے گزرے ہوئے بمشکل ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا۔ ان کی آپ بیتی کے چرچے سنے تھے مگر اس کے مطالعہ کی تحریک ان کی وصیت پڑھنے کے بعد ملی۔ اپنی وصیت میں اس شخص نے جس نے سینہء خاک پر کوئی سو برس گزارے تھے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کی راکھ کے ایک حصے کو پاکستانی پنجاب کے ایک دور دراز گاؤں ہڈالی میں بھیج دیا جائے۔۔۔۔۔ وہ گاؤں جو اس کی جنم بھومی تھا ۔۔ جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی اور اپنے ابتدئی دن مشفق دادی کے زیر سایہ گزارے تھے۔
آپ بیتی کا نام Truth, love and little malice ہے جس کا اردو ترجمہ "سچ محبت اور ذرا سا کینہ" کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ نوے سال کے وسیع کینوس پر بکھرے واقعات میں زندگی کے سبھی رنگ موجود ہیں۔ کبھی سچ کا رنگ نمایاں ہوتا تو کبھی محبت کے رنگ بکھرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی کبھی کینہ ان دونوں پر غالب آ جاتا ہے (مگر ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں)۔
مجموعی طور پر یہ کئی پرتوں پر مشتمل شخصیت کی کہانی ہے، جس میں مختلف تضادات ایسے جمع ہو کر رہ گئے ہیں کہ جیسے منفی اور مثبت ذرات مل کر ایک ایٹم کی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ شخص جو خدا کو تو نہیں مانتا مگر اسے اپنے سکھ ہونے کے تشخص پر ناز ہے اور وہ سکھ تاریخ پر کئی کتب لکھتا ہے۔۔۔۔۔ اسے تقسیم ہند کے وقت لاہور سے افراتفری کے عالم میں بھاگنا پڑتا ہے مگر دنیا میں وہ پاکستان کے دوست کی حثیت سے پہچانا جاتا ہے اور ہر دوسرے برس پاکستان میں آن موجود ہوتا ہے۔
خوشونت سنگھ کی زندگی کی زندگی کی کہانی پنجاب کے ایک گاؤں ہڈالی سے شروع ہوتی ہے۔ بچپن دادی کے زیر سایہ گزرتا ہے اور اپنی دادی کا غیر مرئی عکس وہ ساری عمر اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ پھر وہ وہاں سے دلی کا رخ کرتا ہے اور کچھ برس وہاں گزارنے کے بعد وکالت کی تعلیم کی خاطر لندن کیلئے رخت سفر باندھتا ہے۔۔۔ اس دوران وہ طرح طرح کے حسین حادثوں سے دو چار ہوتا ہے جن کے بغیر یہ آپ بیتی نامکمل رہتی۔۔۔ پوری کتاب میں خوشونت سنگھ نے اپنے جنسی تجربات کو بھی کھل کر بیان کیا ہے مگر ان کے بیان کے معاملے میں وہ ہمارے جوش ملیح آبادی کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکے۔
بحرحال لندن سے واپسی پر خوشونت سنگھ کو نہ وکالت راس آتی ہے اور نہ کوئی سرکاری نوکری۔ وہ کئی برس یورپی ممالک میں ہندوستانی سفارت کار کی حثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ ہر نوکری کے بعد وہ اپنے امیر باپ کا محتاج ہوتا ہے اور خاندان والے اسے نکھٹو کا خطاب دیتے ہیں۔
آخرکار 36 برس کی عمر میں جا کر خوشونت سنگھ کو اپنی منزل کا سراغ ملتا ہے۔ ذاتی تجربات اور دل کے جذبات قلم سے ایک ناول کی صورت میں امڈتے ہیں دنیا جنہیں ٹرین ٹو پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔۔۔
پھر یہاں سے خوشونت سنگھ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ صحافت و ادب کی وادیء خارزار میں قدم رکھتا ہے اور پھر یہ سفر اس کی زندگی کے سفر کے ساتھ ہی اختتام پزیر ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ ہندوستان کے کئی اخبارات کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف اس کے قلم سے کئی ادبی شاہکار جنم لیتے ہیں۔ وہ سکھوں کے مذہبی صحائف کا پنجابی سے انگریزی ترجمہ کرتا ہے تو دوسری طرف اقبال کی شاعری کے سحر میں مبتلا ہوکر ان کی شاہکار نظموں شکوہ اور جواب شکوہ کو بھی انگریزی کے قالب میں ڈھالتا ہے۔۔۔۔ یوں خوشونت سنگھ کی شخصیت کئی زبانوں اور تہذیبوں کا ایک حسین سنگم بن جاتی ہے۔
اپنی خدمات کے صلے میں اسے ہندوستان کا اعلی ترین اعزاز پدم بوشن بھی ملتا ہے (جسے وہ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے دوران واپس کر دیتا ہے) اور وہ ہندوستان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا رکن بھی بنتا ہے۔۔۔ ان دنوں اقتدار کی رسا کشی اور کرسی کی خاطر کشمکش کو بھی مصنف نے کھل کر بیان کیا ہے۔ گاندھی/نہرو خاندان کی اندرونی سیاست کے متعلق کئی انکشافات بھی اس میں شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ حصہ جس میں اندرا گاندھی اور مانیکا گاندھی (یعنی ساس بہو) کے درمیان ہونے والے مشہور زمانہ جھگڑے کا تذکرہ کیا گیا ہے پڑھنے کے قابل ہے کیوں کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہندوستانی سیاست میں اس حادثے کی تلخی ماند نہیں پڑی۔
خوشونت سنگھ کا پاکستان سے بھی گہرا تعلق رہا ہے جس میں سے کئی یادوں کو انہوں نے اس کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ اردو والوں کے لئے بھی وہ اجنبی نہیں کیونکہ ان کی زندگی میں ہی ان کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی تھیں اور وہ خود بھی اردو میں مہارت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب بیسویں صدی کے جنوبی ایشیا پر ایک اہم دستاویز کی حثیت رکھتی ہے۔ اسے نگارشات پبلشرز لاہور نے شایع کیا ہے اور ان کی دوسری ترجمہ شدہ کتب کی طرح یہ بھی قابل تحسین ہے!!!
2 comments:
السلام علیکم
میں نے موبائل پہ یہ پوسٹ دیکھی تبصرہ کرنا چاہا تو موبائل پر ممکن نہ ہو سکا ۔ موبائل اور تھیم نے آپس میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا
یہ کتاب میں نے پہلی دفعہ انگریزی میں پڑھی تھی اور اس کا بھی مزہ آیا کیونکہ خوشونت بنیادی طور پر انگریزی کا لکھاری ہے تو انگریزی الفاظ کو برتنے کا اس کا اپنا انداز ھے ۔
خوشونت کو پاکستان کے حق میں سب سے پہلے ضیاء الحق نے مرید کیا تھا ۔ جب خوشونت سنگھ پاکستان کے دورے پر آئے تو ضیاء نے انہیں ملاقات کے لیئے مدعو کیا ۔ ملاقاتی کمرے میں جب خوشونت داخل ہوئے تودیکھا کہ وہاں ضیائ کی کرسی کے ساتھ پڑی تپائی پر خوشنت سنگھ کی لکھی ہوئی کتاب " اے ہسٹری آف سکھ " کی تینوں جلدیں پڑیں تھی ۔ ضیاء نے اپنے ملاقاتیوں کے لیئے مخصوص انداز میں ان کی تعریفیں کیں جس سے خوشونت بہت متاثر ہوئے اور اس کے بعد ان کے قلم سے پاکستان کے خلاف کبھی سخت بات نہیں نکلی ۔ اندرا کی موت اور گولڈن ٹمپل کے ایکشن نے انہیں انڈٰیا سے مایوس کر دیا اور انہوں نے کمنگ ڈیوائڈ آف انڈیا کے نام سے کتاب لکھی ۔
سچ محبت اور ذرا سا کینہ کی سب سے بڑی بات جو ہم پاکستانی قارئین کو متاثر کرتی ہے وہ ان کا اپنی ذات کے متعلق بہت کھلے پن کا اظہار ھے جو ہمارے مصنفیں کے لیئے دئیے دینے والے انداز کے برعکس ھے ۔ ان کا یہی انداز ان کے ناول دلی میں جھلکتا ھے ۔
ایک عظیم مصنف بننے کے لیئے انہوں نے اپنی ذات پر کچھ پابندیاں بھی عاید کیں ۔ یہی عادت مفتون سنگھ کی بھی تھی یعنی صبح چار بجے اٹھ کر کام شروع کرنا اور تقریبا بارہ بجے کام ختم کرنے کے بعد کا وقت اپنی مرضی سے گذارنا اور رات دس بجے سو جانا ۔ مفتون سنگھ تو یاری دوستی میں رات دس بجے سونے والے کام سے احتراز کرتے رہے لیکن خوشنت سنگھ اس پر پابندی سے کارفرما رہے ۔
اگر جوانی میں خوشنت کو پیٹ کی خاطر اخبر کی ادارت نہ کرنا پڑتی تو شاید اس کی ادبی تخلیقات کی تعداد زیادہ ہوتی
معلومات افزاء تبصرے کا شکریہ سر۔ آپ کو تبصرے کے لئے جو مشکل اٹھانا پڑی اس کے لئے معذرت چاہوں گا۔۔۔ اردو ترجمے میں بھی ان کی تحریر کی خوبیاں ماند نہیں پڑیں۔ اصل تحریر تو اس سے بھی خاصے کی چیز ہو گی۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔