Pages

Sunday, 15 March 2015

کوٹلی نامہ: کچھ ہمارے شہر کے بارے میں

کوٹلی آزاد جموں کشمیر کا ایک خوبصورت منظر
لوگ دنیا بھر میں گھوم پھر کے آتے ہیں اور ایسے سفر نامے لکھتے ہیں جنہیں پڑھ کر وہاں جانے کا شوق پیدا ہو نہ ہو ،منہ میں پانی ضرور بھر آتا ہے ۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے شہر اپنی جنم بھومی کے بارے میں آج تک چار حرف تک نہیں لکھ سکے۔۔۔ تو ہماری یہ تحریر اسی قرض کو چکانے کی ایک کوشش ہے۔ گو اس میں ہم نے اپنے شہر کی تعریف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر اس بات کا کیا کیجئے کہ یار دوستوں کی رائے کے مطابق ہماری "تعریف" بھی اعلی درجے کی برائی سےکسی صورت کم نہیں ہوتی۔ اب پڑھنے والوں کی مرضی کہ وہ اس کو کن معنوں میں لیتے ہیں۔

کوٹلی (آزاد جموں کشمیر) راولپنڈی سے شمال مشرق میں 141 کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے۔ عام طور پر یہ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے مگر یاد رکھیں یہ چار گھنٹے چھے اورآٹھ گھنٹوں میں بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ سب موسم کی صورت حال اور سڑکوں کی حالت پر منحصر ہے یہاں سڑکیں بھی ماشاءاللہ اس شعر کی عملی تصویر ہیں کہ
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں.

ہر بار جب ہم بہاولپور سے  گھر واپس لوٹتے تو سڑکوں کا ایک نیا روپ نظر آتا ہے۔ کبھی اتنی چمکتی ہوئی سڑکیں  ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور کبھی گاڑی گرد سے ایسے اٹ جاتی جیسے صحرا سے گزر رہی ہو۔

ہمارے شہر کی چیدہ چیدہ خصوصیات درج ذیل ہیں:

محل وقوع: کوٹلی شہر کا محل وقوع کچھ اس طرح ہے کہ اس کے شمال میں پہاڑ ہیں۔ جنوب میں بھی ایک پہاڑی سلسلہ ہے اور خوشقسمتی سے مشرق اور مغرب میں بھی پہاڑ ہی پہاڑ ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کوٹلی شہر خود بھی ایک پہاڑ پر ہی واقع ہے۔ گو یہاں کے باشندے اس بات کی بھرپور تردید کریں گے اور خود کو پہاڑی کی بجائے شہری کہلوانا پسند کرینگے مگر ان کی باتوں پر نہ جائیے گا۔

مدینہ المساجد: یہاں ہر سو آپ کو مسجدیں ہی مسجدیں نظر آئیں گی جن کی وجہ سے کوٹلی شہر کو مدینہ المساجد کہا جاتا ہے۔ اور تو اور یہاں آپ کو پاکستان کی مشہور ترین مساجد کی طرز پر تعمیر کی گئی چھوٹی مساجد بھی ملیں گی۔ بچے جب فیصل مسجد جانیں کی ضد کریں تو ماں باپ انہیں ایسی ہی فیصل مسجد میں لے جاتے ہیں اور بچے اسی کو دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ چونکہ مذہبی ہیں اس لیے انہوں نے مسجدیں تو بہت تعمیر کرائی ہیں مگر لوگوں کی اکثریت  عموما ان میں جانے سے پرہیز کرتی ہے تا کہ وہاں زیادہ گندگی نہ پھیلے۔ اس سے آپ یہاں کے لوگوں کی صفائی پسندی کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

کوٹلی کی ایک چھوٹی مگر خوبصورت مسجد (فوٹو: بلال حسن BH photography)


دریائے پونچھ: دریائے جہلم کا جڑواں بھائی دریائے پونچھ شہر کو تین اطراف سے گھیرے میں لے کر گزرتا ہے جو اس جسارت پر  خود بھی شرمندہ ہوگا۔۔ کیونکہ سارے شہر کی گندگی کا بوجھ اس بیچارے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ شہر کے لوگ چونکہ بہت صفائی پسند ہیں  اس لئے ساری گندگی بلا تعامل اس کے حولے کر دیتے ہیں۔ دریا بھی پچھتاتا ہو گا کہ اس نے کوٹلی کے پاس سے ہی کیوں گزرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے وہ برسات کے موسم میں اکثر بپھر کر آس پاس کی آبادیوں انتقام بھی لے لیتا ہے۔

آبادی: آج سے بیس تیس سال پہلے کوٹلی کی آبادی ہزاروں میں  تھی جو آج لاکھوں میں بدل چکی ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجوہات کے بارے بھی  ابہام موجود ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اتنے سارے لوگ ادھر کہاں سے ٹپکے  ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے آنکھیں بند کر کے سڑک پار کی جا سکتی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر بھی سڑک پار کرنا عذاب لگتا ہے۔

علم دوستی:کوٹلی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ لاکھوں کی آبادی ہونے کے باوجود یہاں کوئی لائبریری نہیں۔ کچھ لوگ روایت کرتے ہیں کہ کسی دور میں یہاں ایک لائبریری بھی ہوا کرتی تھی لیکن لوگوں کی علم دوستی کی وجہ سے بند ہو گئی۔ یہاں کے علم دوست حضرات اول تو یہاں جانے سے ہی پرہیز کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ لگانے سے کتابیں خرا ب نہ ہو جائیں اور خدانخواستہ علمی ورثے کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ جائے۔ اور جو لوگ کبھی بھولے بسرے یہاں کا رخ کر لیتے تھے وہ اس قدر علم دوست تھے کہ کتابوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے تھے تاکہ ساری زندگی اس علمی ورثے کی حفاظت کر سکیں۔ یوں اس علمی ورثے کی تکریم و حفاظت کے چکر میں لائبریری نے بند ہونا ہی مناسب سمجھا۔

قابل دید مقامات: یہاں کے قابل دید مقامات میں یہاں کے سرکاری دفاترسر فہرست ہیں جہاں صبح و شام سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے اور یہ مقامی سیاح لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے جائز و ناجائز طریقے سے اپنا کام نکلوانے میں لگے رہتے ہیں۔ باقی اگر شہر میں اگر کسی کو فرصت مل جائے تو وہ دریا کا رخ کرتا ہے یا شہر کے آس پاس  پہاڑوں پہ موجود ویو پوائنٹس  کا نظارہ کرتا ہے۔ دریا کے کنارے ہمارا ایک پسندیدہ پارک بھی ہوا کرتا تھا جو موجودہ سیلاب میں دریا کے غیض و غضب کا نشانہ بن گیا اور اس کی دوبارہ تعمیر تک اندیشہ ہے کہ ہمارے بال بھی سفید ہو چکے ہونگے۔ باقی آثار قدیمہ کے طور پر کچھ ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مندر بھی موجود ہیں جو زمانہ کی شکست و ریخت سے ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے اندر جانا آپ کو مہنگا پڑھ سکتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہیں وہ گرنے کیلئے آپ ہی کا انتظار نہ کر رہے ہوں۔

تعمیرات: یہاں سب کچھ زیر تعمیر ہوتا ہے۔ ایک سٹیڈیم ہے جو گزشتہ پندرہ برس سے زیر تعمیر ہے۔ کئی سڑکیں ہیں جو ہمیشہ لگتا ہے کہ اگلے سال تک مکمل ہوجائیں گی۔  بس ایک اہم پل ہے  جو روایات کے برعکس 6،7 کے عرصے میں ہی تعمیر کر لیا گیا ہے۔ اور تو اور ایک چھوٹا سا  ڈیم بھی بن  رہا ہے جو اگر مقامی ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو ایک صدی تک بھی اس کے مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔

صنعت: یہاں کی سب سے بڑی صنعت یہاں کے نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں استاد طلبہ کی درگت بناتے ہیں اور طلبہ اساتذہ کی۔ ابن سینا و رازی سے لے کر قائد اعظم تک کے نام پر سکول و کالج بنے ہیں جن کا حال دیکھ کر یقینا وہ لوگ بھی کم از کم بے ہوش ہو جاتے۔

مکمل تحریر >>