Pages

Friday, 25 April 2014

حامد میر اور جلتا ہوا بلوچستان


حامد میر


حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد اٹھنے والی گرد ابھی پوری طرح بیٹھی نہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایجنسیوں نے یہ حملہ کرایا ہے کہ نہیں ان کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ کیچڑ سے کھیلیں گے تو ہا تھ تو گندے ہونگے ہی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ لوگ ان کے کردار، طریقہ عمل اور حدود و قیود کے بارے میں کھل کر بات کر رہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ بات خوش آئیند بھی ہے کیونکہ آزاد ملکوں میں نہ ہی کوئی آئین و قانون سے بالاتر ہوتا اور نہ ہی کسی کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

خیر اس حملے  کے بعد اس قدر شور اٹھا ہے کہ لوگ اصل معاملے کو بھلا ہی بیٹھے ہیں۔ حامد میر پر حملے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان میں سب سے اہم مسئلہ بلوچستان ہے۔ لوگ حامد میر کی ذات پر جتنا مرضی کیچڑ اچھالیں اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ اندھوں کی اس بستی میں دیدہ بینا رکھنے والے چند لوگوں میں سے ہے جنہوں نے نہ صرف خود بلوچستان کے حالات کا قریبی جائزہ لیا بلکہ ان کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔

آج ٹی وی چینلز پر چیخ چیخ کر حب الوطنی کا درس دیتے ہوئے لوگ  مجھے بالکل نیرو کی طرح لگتے ہیں۔  ملک جل رہا ہے اور یہ حب الوطنی اور قومی اداروں کے احترام کا درس دے کر سکھ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

بلوچستان کے آتش فشاں میں چالیس سال تک لاوہ جمع ہوتا رہا اور ہماری سویلین اور فوجی حکومتیں کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر بیٹھی رہیں۔ اب جب آتش فشاں پھٹ پڑا ہے تو سب کے ہا تھ پیر پھول چکے ہیں۔  انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا اور ایسا لگ رہا جیسے وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ جس کو چاہا لاپتہ کر دیا۔ جب دل کیا ان لاپتہ افراد کو تشدد کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینک دیں۔ خون ہمیشہ ایسی نفرت کو جنم دیتا ہے جو نسل در نسل چلتی ہے جس کا تدارک نا ممکن ہے۔ وہ بلوچوں کو لاشوں کا تحفہ دے رہے ہیں تو کیا وہ آگے سے پھول پیش کریں گے۔ اسی لیے حبیب جالب نے کہا تھا کہ 

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
 گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
 یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

حبیب جالب نے تو یہ بھی کہا تھا کہ "جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا". پاکستان ٹوٹ گیا لیکن پنجاب نہیں جاگا۔ آج بھی پاکستان علیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن پنجاب سویا ہوا ہے۔ بلوچوں کے معاملے پر پنجاب کی اکثریت کی بے حسی گہرے معنی رکھتی ہے۔

بلوچستان پاکستان کے نقشے پر

آپ مانیں نہ مانیں ہماری ان پوشیدہ قوتوں کو اپنے غیر قانونی اقدامات کے لیے پنجاب کی اکثریت کی خاموش تائید حاصل ہے۔ ادھر لہو بہہ رہا ہے تو کیا ہوا یہاں تو موٹر وے کی تعمیر ہو رہی ہے۔ میٹرو بن رہی ہے۔ ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ کل جب آگ ان لوگوں کے دروازوں تک آ پہنچے گی تب جا کے انہیں ہوش آئے گا مگر تب شاید دیر ہو چکی ہوگی۔

باقی سانحہ مشرقی پاکستان نے ثابت کر دیا تھا کہ کون غدار ہے اور کون محب الوطن۔ کس نے اپنے مفادات کی خاطر ملک کے دو ٹکرے کیے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں  اور کون وہ لوگ تھے جنہوں نے تشدد کی مخالفت کر کے ملک کو آخر دم تک بچانے کی کوششیں کیں۔ پاکستان میں جمہوریت تو اپنی پیدائش  سے پہلے ہی مر گئی تھی جب ہمارے حب الوطنی کے رکھوالوں نے (چاہے وہ سویلین ہون یا فوجی) انتخابات میں واضح اکثریت رکھنے والی جماعت کو بیلٹ سے ہارنے کے بعد بلٹ سے شکست دینے کی کوشش کی۔ اب جمہوریت کے نام پر جو بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے ایک ڈھکو سلہ ہے۔ نظر کا فریب ہے۔

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھتے ہو ئے میرا سر تو ہمیشہ شرم سے جھک جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی پڑے گا۔ شاید اسی لیے دوبارہ اس کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ ایک نیا سٹیج سج چکا ہے اور یہی پاکستان کے دشمن بھی چاہتے ہیں تا کہ وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو سکیں۔

1 comments:

Nabeel Jalal نے لکھا ہے کہ

Great work Hamza , u have listed main points that every common man have that why those people are pretending to Patriotic who was saying Army ISI is doing wrong when they were in opposition And our Army as well as its so called agencies are not pious or we can say that not working fair. It is a routine in Pakistan when one point out stakeholders mistakes they are murdered. And by blocking the geo in many cities relevant army is making it clear that something is fishy.

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔