Pages

Friday 26 December 2014

اور آنا ہمارا میڈیکل کالج میں


31 دسمبر 2012 کے دن ہم دو عدد سینئرز  کے ہمراہ اپنی زندگی کے طویل ترین سفر پر روانہ ہوئے۔خوشی ہمارے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ خوش کیوں نہ ہوتے آخر ڈاکٹر بننے جارہے تھے۔گھر سے نکلتے ہی ہمارا سینہ تن گیا۔ ہم سر اٹھا کر چلنے لگے کہ آخر لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ ہم ڈاکٹر بننے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر بننا کوئی مذاق تھوڑی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ  جب ہم اگلی صبح جب ہم بہاولپور پہنچے تو ہمارے شانے جھکے اور بال بکھرے ہوئے تھے اور ہماری حالت ایسی تھی جیسے ابھی میدان جنگ سے واپس لوٹے ہیں۔

دوسرے میڈیکل کالجز میں پڑھنے والے "تجربہ کار" دوستوں نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر رکھا تھا کہ قائد اعظم میڈیکل کالج  آ کر ہماری بڑی خاطر تواضع ہونی ہے، چنانچہ ہم نے شروع سے ہی احتیاط برتنا شروع کر دی۔ جن سینئر کی مہمان نوازی سے  ہم لطف  اٹھا رہے تھے انہیں کے ساتھ  ان کے ہاسٹل "جوہر ہال" میں رہنے کی کوشش کی ۔  کبھی انہیں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ہوا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔آخر کار ہم پکڑے گئے اور وہ بھی اپنے ہم علاقہ اور ہمسفر آزاد کشمیر کے سینئرز کے ہاتھوں۔اور پھر ساری رات ہماری درگت بنتی رہی۔ آج بھی اس دن کے بارے میں سوچیں تو یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ
دیکھا جو تیر کھا کر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

پھر تو جیسے سلسلہ چل نکلا۔ اس بار علاقے ، زبان، نسل کے امتیاز کے بغیر  ہماری خاطر تواضع ہونے لگی اور ہماری حالت پنجرے میں بند کسی پنچھی کی طرح ہو گئی۔ دل بس یہی کرتا تھا کہ پنجرہ توڑ کر بھاگ کھڑے ہوں۔

ابتدا میں ہمارا ارادہ تھا کہ "مطلع" صاف ہونے تک سینئر (طلحہ) بھائی کے پاس ہی قیام کیا جائے۔ لیکن "موسم" کی صورت حال اور بگڑتے دیکھ کر ہم نے جوہر ہال سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ تب یہ معلوم نہیں تھا کہ پانچ سالوں میں سب سے یادگار دن یہی شروع کے دن ہی ہوتے ہیں جب بندہ خوف سے دبکا ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ خوف تحلیل ہو جاتا ہے ۔ بندہ فولنگ کی آگ سے کندن بن کر باہر نکلتا ہے اور ایسا  سٹوڈنٹ بن جاتا ہے جسے اپنے کالج کی روایات اور طور طریقوں کا اچھی طرح علم ہو تا ہے۔

خیر ہم نے جوہر ہال کو خدا خافظ کہاا ور اور اپنے ہاسٹل عباس منزل جانے کے لیے کمر باندھ لی۔ آنکھوں میں امیدیں لیے ہم اپنےروم میٹ کے ساتھ عباس منزل کی حدود میں داخل ہوئے۔آگے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطرناک کھنڈر ہے اور اس کے آگے اپنےپنجے پھیلائے کھڑا پرانا سا خوفناک درخت ۔ چاروں طرف گھپ اندھیراتھا بس  سامنے کھمبے پر ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی میں وہ کھنڈر کسی بھوت بنگلے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ یقینا اس کھنڈر کے باہر ہر اماوس کی رات کو بھوتوں کا رقص ہوتا ہو گا، ہم نے سوچا مگر دل کی بات کو زبان پر نہ لا سکے۔ بس کمزور سی آواز میں آواز میں اپنے روم میٹ سے پوچھا "کیا یہی ہے عباس منزل؟ یہیں رہنا پڑے گا ہمیں؟"

اس نے کھنڈر سے چند قدم دور ایک اور عمارت کی طرف اشارہ کیا جو اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ اس  رات ہم فولنگ سے خوفزدہ لڑکوں کو جوہر اور غزالی ہال  ہاسٹلز کا اپنے پاس سے گھڑا ہوا ہیبت ناک نقشہ سناتے رہے  جہاں سینئر قیام پذیر تھے اور ان کے چہروں پر اٹھتی  خوف کی لہریں دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستے رہے۔

کالج کا پہلا دن بھی بہت عجیب تھا۔ہماری حالت  ونڈر لینڈ میں کھو جانے والی ایلس کی طرح تھی۔ذہن  کے اندر "ایم بی بی ایس بہت مشکل ہے" کی تکرار ہو رہی تھی۔ تین سو سے اوپر کی کلاس  دیکھ کر ہم اور گھبرا گئے۔ اس دن کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہم اس نئی جگہ کیا کر ہے ہیں۔ہر شے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔ گھر سے نکلتے وقت جو خوشی تھی دل میں وہ  بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ دو دن میں ہی ہماری ہمت جواب دے گئی۔ موٹی موٹی کتابوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور ہم نے نئے بنائے ہوئے دوستوں کے ساتھ مل کر گھر واپس بھاگ جانے کے ارادے بنانا شروع کر دیے لیکن حالت یہ تھی کہ
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

دوسری طرف کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب والا معاملہ بھی درپیش تھا یعنی گھر واپس جاتے بھی تو کس منہ سے جاتے۔ چنانچہ اپنے تمام منصوبے مناسب وقت آنے تک موخر کر دیے۔


کالج کا ایک منظر


شروع کے دنوں میں یہ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ لیکچر ہال کدھر ہے، لیب کدھر ہے اورDH کدھر۔ بس عوام جہاں کا رخ کرتی ہم بھی چپ چاپ ان کے پیچھے وہیں چلے جاتے۔ ایک دفعہ غلطی سے ہم سیکنڈ ائر کے لیکچر ہال میں  داخل ہو گئے۔ خوش قسمتی سے ہمیں جلد ہی اپنی  اس ناقابل معافی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس  سے پہلے کہ ہماری درگت بننا شروع ہو جاتی ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

بہار تک تو جیسے تیسے وقت گزر گیا۔ چھٹیاں گزار کر واپس آئے تو ملک میں الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی اور دوسری طرف ہمارا  ہاسٹل عباس منزل بھی سیاسی رنگ میں رنگ چکا تھا۔ جدھر دیکھو لڑکے سیاسی گفتگو میں مگن۔ شیر اور بلے کے سپورٹرز کے درمیان دھواں دار بحثیں جاری رہتی تھیں چاہے ان کا کوئی نتیجہ برآمد ہو کہ نہ ہو۔ تیر کو سب نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا تھا۔ ہمارے الیکشن ہونے میں گو تین سال باقی تھے لیکن پھر بھی اس معاملے میں دخل دینا لازمی سمجھا اور ہاسٹل میں عمران خان کی وکالت شروع کر دی۔ کچھ دن بعد ہاسٹل میں یہ حالت ہو گئی کہ اگر صرف عباس منزل میں الیکشن کروائے جاتے تو  PTIآسانی سے حکومت بنا سکتی تھی۔ خیر الیکشن کے بعد تو ہماری یہ حالت ہو گئی کہ ہم منہ چھپاتے پھرتے۔ کمرے سے باہر نکلنا بھی کم کر دیا۔ ہم جہاں کا بھی رخ کرتے وہاں شیر کے سپورٹرز ہمیں چڑانے کیلئے موجود ہوتے۔یہ زہر تو ہم نے ہنس کر پی لیا مگر اصل امتحان ابھی باقی تھا۔

بہاولپور آنے سے پہلے ہمیں یہاں کی گرمی کے خوب قصیدے سنائے گئے تھے۔مگر اس وقت ہم اپنی ہی دھن میں گم تھے اس لئے لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ خیر جب گرمی شروع ہوئی تو ہمیں دن میں تارے نظر آگئے۔ ایسی گرمی نہ دیکھی نہ سنی۔ اوپر سے بجلی غائب۔ ہاسٹل میں سارا دن ہم بارش کی دعائیں مانگتے رہتے۔پھر جب ہاسٹل میں جنریٹر لگا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر جنریٹر بھی ایسا نخریلا نکلا کہ ہفتے میں چار دن چلتا اور بقیہ تین دن آرام فرماتا۔ اب جنریٹر سے کیا شکوہ۔ ادھر اپنا کولر اور پنکھا بھی گرم ہوا دینا شروع ہوگئے۔ بقول شاعر
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن  پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

عباس منزل کی ان گنت خصوصیات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہاں ہر طرح کے کیڑے مکوڑے  وافر مقدار میں موجودتھے۔ اڑنے والے کیڑے، رینگنے والے اور وہ کیڑے بھی جو کمرے میں  کوئی سوراخ نہ ہونے کہ باوجود بھی کہیں آسمان سے ٹپک پڑتے تھے۔ اوپر سے کوئی بلی بھی کسی لمحے چھلانگ لگا کر آپ کی نیند کا بیڑہ غرق کر سکتی تھی۔

خیر گرمیاں جیسی تیسی گزر ہی گئیں۔ اب اصل دن یعنی پڑھائی کے دن شروع ہو گئے۔ پھراس ہاسٹل کے (جہاں رات کو الو بولتے تھے) معمولات ہی بدل گئے۔ اکثر لوگوں کی طرح ہم نے بھی  الو کی ہی پیروی کرتے ہوئے رات کو جاگنا اور دن کو سونا شروع کر دیا یہ سوچ کر کہ کوئی وجہ تو ہے کہ مغرب میں الو کو دانش مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سب سے تیزی سے جو دن گزرے وہ پیپرز کے تھے۔ آخری دو مہینے آئے اور پلک جھپکنے میں گزر گئے۔پھر وہ دن بھی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ جی ہاں رزلٹ کا دن۔ہمارے بارے میں کچھ لوگوں کی پیشن گوئی تھی کہ دو سپلیاں تو کہیں نہیں گئیں۔ ہم گھر بیٹھے تھے کہ دوست کا میسج آیا "میں پاس ہو گیا ہوں"۔
"مبارک ہو"  ہم نے پھر پوچھا "میرا کیا بنا"۔
"تو بھی پاس ہے" گو اس نے بے یقینی سے کہا تھا مگریہ لفظ سننے کیلئے ایک سال سے ہمارے کان ترس رہے تھے۔

خیر جب ہم نے ہاسٹل میں قدم رکھا تو ہر کوئی ہمیں حیرت سے دیکھتا اور سوالیہ انداز میں پوچھتا "تم بھی پاس ہو؟''۔ ہر کسی کی آنکھوں میں بے یقینی ہوتی۔آخر کسی کو یقین کیوں نہیں آتا کہ  ہم بھی پاس ہیں۔اس "تم بھی پاس ہو" نے ابھی تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔

ایک سال پہلے ہم کالج سے بھاگنے کہ منصوبے بنا رہے تھے۔ اب اتنے مانوس ہوگئے ہیں کہ یہ اپنے گھر کی مانند لگتا ہے۔ وہ سینئر جن سے ہم خوف کھاتے تھے بڑے بھائیوں کی طرح لگتے ہیں۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس ہوگئے صیاد سے ہم
اب رہائی ملی تو مر جائیں گے۔۔۔


پس تحریر: اصل میں یہ تحریر ہم نے اپنے کالج میگزین کیلئے لکھی تھی مگر چونکہ ان دنوں ہمارے بلاگ پر تحاریر کا "کال" پڑا ہے تو ہم نے سوچا کیوں نہ ایک بار پھر انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو لیا جائے۔ آخر اس میں مضائقہ کیا ہے :)

7 comments:

Syed Mumtaz Ali Bukhari نے لکھا ہے کہ

زبردست جناب! کوشش جاری رکھئیے۔۔۔۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

مجھے دوسروں کے کالج میں شروع کے دن جاننے کا مزا آتا ہے کیونکہ میں اس دروازے سے نہیں گذرا ۔ جب گیارہویں میں داخل ہوا ۔ پہلے دن میں ایک سینئر کے ساتھ جا رہا تھا کہ کچھ سینئر لڑکے آئے اور اپنا کام شروع کرنے کیلئے پوچھا ”آپ کہاں سے آئے ہیں ؟“ میرا جواب سُن کر لمحہ بھر توقف کیا پھر اور سوال پوچھا ۔ اُس کا جواب ملا تو بھی بات نہ بنی ۔ قبل اسکے کہ تیسرا سوال پوچھتے میں نے کہا ”اور کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لیجئے پھر شاید موقع نہ ملے“۔ پھر وہ ایک دوسرے نووارد کو دیکھ کر اُس کی طرف چلے گئے ۔ دراصل سارا کھیل قوتِ ارادی اور حاضر جوابی کا ہوتا ہے جو اُس وقت اللہ نے عطا کر دی تھی
جب انجنئرنگ کالج میں داخل ہوئے تو ایک ہوسٹل میں فائنل ایئر کے لڑکے رہتے تھے اور 4 بڑے کمرے تھے جن میں تین تین فرسٹ ایئر کے لڑکے بسانے کا فیصلہ ہوا ۔ ان 12 خوشقسمت لڑکوں میں ایک میں بھی تھا ۔ فائنل ایئر کے لڑکے ہمارا مذاق بنانے کی بجائے ہماری رہنمائی کرتے رہے

حمزہ نیاز نے لکھا ہے کہ

تبصرے کا شکریہ افتخار انکل۔ شروع کے دن ہی سب سے عجیب و غریب اور بے یقینی سے بھرپور ہوتے ہیں اس لئے بندہ انہیں کبھی نہیں بھولتا۔ باقی سینئر تو ہمیں بھی بہت اچھے ملے ہیں۔ ایویں ہی ڈرا رکھا تھا سب نے!!!

علی نے لکھا ہے کہ

قائد اعظم میڈیکل کالج سے ہمارا تعلق کم اور بی وی ہسپتال سے زیادہ رہا ہے لیکن جو جان پہچان باہر سے تھے وہ آپ نے اندر سے بھی کرا دی۔ بہت اچھا لکھا

حمزہ نیاز نے لکھا ہے کہ

علی بھائی آپ تشریف لائیں تاکہ اور جان پہچان بھی ہو سکے :)

اسامہ فیض نے لکھا ہے کہ

واہ بہت عمدہ حمزہ بھائی...

حمزہ نیاز نے لکھا ہے کہ

شکریہ اسامہ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔