Pages

Wednesday, 21 May 2014

جیو کی بندش کے بعد کچھ کہانیاں

(1) نیا مشن 

"مشن مکمل ہوا سر۔۔۔" نامعلوم لباس میں ملبوس ایک نامعلوم شحص نے فون پر اپنے افسر سے کہا۔
فون بندکر کے وہ دھیرے سے اٹھا اور ٹی وی لاؤنج میں آگیا اور اس کے بھاری بوٹوں کی دھمک سے پورا  گھرگونج اٹھا۔اس نے ریموٹ اپنے ہاتھوں میں لیا اور چینل بدل بدل کر دیکھنے لگا کہ کہیں اور تو کوئی چینل "قابلِ اعتراض" مواد تو نہیں دکھا رہا۔۔۔۔۔پھر یکدم اس کا ہاتھ رک گیا اور اس کی نظریں ایک اور چینل پر جم گئیں!!! ایک نیا مشن اس کے سامنے تھا۔۔


(2) مبارک ہو

پاکستان سے باہر ایک ملک میں مقیم ایک بہت بڑے انقلابی عالم اپنے جہازی سائز کمرے میں بیٹھے تھے ۔ نہ صرف کمرہ ان کے معتقدین سے بھرا ہوا تھا بلکہ ان کی تنظیم کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ (جو کہ سب سے بڑا شعبہ تھا) کی وجہ سے پاکستان کے تقریبا ہر شہر سے کارکن سکائپ کے ذریعے اس بابرکت محفل سے جڑے ہوئے تھے۔ حضرت ایک خاص فون کے انتظار میں تھے۔۔۔۔ گو وہ جو خبر سننا چاہ تھے نہ صرف ٹی وی پر آگئی تھی بلکہ اس  سے  پہلے ہی ان کے سوشل میڈیا کے مجاہد انہیں اس عظیم معرکے میں فتح کی خوش خبری دے چکے تھے۔۔۔۔۔ مگر اصل چیز تو وہ فون کال تھی جس کا انہیں انتظار تھا۔۔۔

کمرے میں ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا اتنا ہی سب کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا( کہ  کہیں فون کرنے والوں کی  ڈائری سے حضرت صاحب کا فون نمبر تو نہیں کاٹ دیا گیا) پھر یکدم ان کے فون پہ پاکستان کا قومی ترانہ (موسیقی کے ساتھ) بجا اور نہ صرف حضرت صاحب کی جان میں جان آئی بلکہ متعقدین  نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

پھر وہ موبائل کان سے لگا کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ جسم تو ان کا یہیں تھا مگر روح کہیں دور  راولپنڈی اسلام آباد کے گرد بھٹک رہی تھی۔جب انہوں نے فون کان سے ہٹایا تو ان کے چہرے سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ پھر وہ یکدم بول پڑے"مبارک ہو۔۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔ پیمرا نے آج  ایک فتنے کا خاتمہ کر دیا ہے۔۔۔انقلاب کی منزل اب دور نہیں۔۔-پرانے نظام کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔۔۔۔بس اب انقلاب آ رہا ہےانقلاب۔۔۔۔"

حضرت کا یہ کہنا تھا کہ ان کے کارکن سجدے میں گر گئے۔ ان کی آنکھوں میں شکر کے آنسو تھے۔۔۔۔جبکہ حضرت صوفے پر اور پھیل کر بیٹھ گئے اور اگلی فون کال کا انتظار کرنے لگے۔


(3) کھیل اور کھلاڑی

کھلاڑی نما سیاستدان  (یا سیاستدان نما کھلاڑی) نے   ایک ٹی وی چینل بند کرا کے گویا اپنے کیریئر کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔اب راہ کا اصل پتھر تو ہٹ گیا ہے اس لیے منزل زیادہ دور نہیں ۔ ۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔ابھی کل ہی مودی جی نے الیکشن جیتا ہے۔ انڈیا کے اگلے وزٹ میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرنا پڑے گا۔۔۔۔آخر پتا تو چلے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کی موجودگی میں  اتنی بڑی کامیابی انہوں نے حاصل کی بھی تو کی کیسے۔۔۔۔۔ساتھ امن کی آشا والے دوستوں نے اب لفٹ تو نہیں کرانی۔ کچھ نئے دوست تو ڈھونڈنے پڑیں گے۔۔۔میں نے کشمیر پہ جو بیان دیا تھا  انڈیا میں اس پہ تو مودی جی بہت خوش ہونگے۔۔۔اور پاکستان میں بھی ویسے بھی اب بس اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینا ہے۔۔۔۔ خیر جن  کے پاس بلڈوزر ہیں وہ تو ساتھ ہی ہیں مگر عوام کو دکھانے کیلئے دھکاتو دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ دیوار گرانے کا اصل کام تو بلڈوزر کا ہی ہوتا ہے۔

یہی کچھ سوچتے سوچتے ہو ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں اس کی جماعت کے لیڈر (یا ٹیم کے کھلاڑی) بیٹھے تھے۔ کچھ  چہرے روشن تھے جبکہ کچھ چہروں پر اداسی کی رمق تھی۔

"حضور "ایک شحص نے کھڑے ہو کر کہا "کہیں ہم سے نادانستگی میں کچھ غلط تو نہیں ہو گیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جس پچ پر کھیل رہے ہیں اسی کے ایک حصے کو  اکھاڑ دیا ہے۔۔۔کل کو اگر باہر سے آ کر کسی نے پوری پچ کا بیڑا غرق کر دیا تو!!!!" اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
"کوئی بات نہیں " کھلاڑی نے جواب دیا"ہم ایک نئی پچ بنا لیں گے"۔
اس بات پر سب نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے اور کھلاڑی کا سینہ فخر سے تن گیا۔۔۔پھر وہ سب کھلاڑی کی ذہنی اپج، گہری نظر اور بال کو ہمیشہ نشانے پر پھینکنے کی  خاصیت کی تعریف کرنے لگے۔۔

"مجھے لگتا ہے کہ کھلاڑی نے اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑی کو آؤٹ کر دیا ہے" کمرے میں  موجود ایک شحص نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی۔
"یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھلاڑی اندر سے دوسری ٹیم کہ ساتھ مل گیا ہو"
"اور یہ بھی ممکن ہے کہ کھلاڑی ہمیشہ سے دوسری ٹیم کا حصہ رہا ہو" دونوں بے یقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
باہر سے اچانک شور وغل سنائی دیا اور کھلاڑی اٹھ کر بالکونی پر آ گیا۔

گھر کے باہر نوجوانوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لڑکیاں تھیں جو کھلاڑی کو دیکھنے آئی تھیں۔۔۔۔کچھ لڑکے تھے جو ان لڑکیوں کو دیکھنے آئے تھے۔۔۔اور باقی سب وہی لوگ تھے جو کسی بھی جگہ ہجوم دیکھ کر تماشہ دیکھنے جمع ہو جاتے ہیں۔ ہاتھ ہلاتے ہلاتے کھلاڑی کو وہ منظر یاد آ گیا جب وہ ایک بڑی سی ٹرافی ہاتھ میں تھامے یونہی ہاتھ ہلا رہا تھا اور لوگ اسےکسی بادشاہ کی طرح گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ اب اس کو بلڈوزر سے دیوار کے گرنے اور پھر مودی جی کی طرح اپنی عالی شان فتح کا انتظار تھا۔


(4) برقعہ

مولوی صاحب (جو کہ ایک  غیر سیاسی مذہبی جماعت کے رکن بھی تھے)اپنے محلے کے عمائدین سے محو گفتگو تھے۔۔۔کہ اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قوم کی ایک دجالی فتنے سے جان چھوٹی۔۔۔۔جلد ہی سب یہودیوں اور ہندوؤں کے ایجنٹوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔۔۔۔ اب انشاءاللہ محلے کےسب لڑکے سدھر جائیں گے اور لڑکیوں پر جملے کسنا چھوڑ دیں گے۔۔۔اور لڑکیاں ساری ساری رات پیکج لگا کر باتیں کرنا بھول جائیں گی۔۔۔لوگوں کے اخلاق بہتر ہونگے۔۔۔نہ صرف مسجد میں ان کی آمد بڑھے گی بلکہ مجھے چندہ بھی زیادہ ملے گا۔۔۔گھروں میں یہ ناچ گانا بھی بند ہو جائے گا۔۔۔۔اور تو اور پردے کا چلن بھی بڑھے گا۔۔۔۔مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ سب عورتیں برقع پہننا شروع کر دیں۔۔۔۔یہ خیال آنا تھا کہ مولوی صاحب یکدم پریشان ہو گئے۔


(5)کافر کافر۔۔۔۔

ایک فرقہ پرست  تنظیم کے سربراہ اپنے کارکنوں سے :اللہ کے فضل و کرم سے آخر کار ہم نے اپنی فوج پر انگلیاں اٹھانے والے ہر ہاتھ کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور ہر وہ آنکھ نوچ ڈالی ہے جس نے ہمارے ملک کی نظریاتی سرحدوں پر گندی نگاہ ڈالی تھی۔۔۔آئندہ بھی جو ایسی مذموم حرکت کرے گا اس کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہے گا۔۔۔مگر میرے بھائیو! تم نے اپنے اصل مشن کو نہیں بھولنا۔۔۔۔اب ذرا زور سے ایک نعرہ  لگاؤ کہ۔۔۔۔"کافر کافر شیعہ۔۔۔۔۔"


(6)بند ہو گیا ہے

"سنا ہے جیو بند ہو گیا ہے "ایک مزدور نے دوسرے مزدور سے کہا۔
"جیو؟ یہ جیو کیا ہے"
"تمارے گھر جیو نہیں آتا۔۔۔ ویسے تو اب ہمارے گھر بھی نہیں آتا۔۔۔ مگر پہلے تو آتا ہو گا ناں؟"
"ہمارے گھر تو کوئی نہیں آتا۔۔بس کونسلر صاحب الیکشن سے پہلے ایک بار درشن دکھاتے تھے وہ بھی اب  نظر نہیں آتے۔۔"
"ارے بیوقوف ٹی وی چینل کی بات کر رہا ہوں"
"ہمارے گھر تو ٹی وی نہیں ہے"
"ٹی وی تو میرے گھر بھی نہیں ہے وہ تو میں ایویں شو مار رہا تھا۔۔بس کبھی کبھی چچا اشرف کے کھوکھے پر دیکھ لیتا تھا--۔۔وہ بتا رہا تھا کہ جیو بند ہو گیا ہے۔"
"چلو چلو کام پر لگو" پاس سے گزرتے ہوئے ٹھیکیدار بولا"ورنہ میں نے تمارا نان نفقہ بند کر دینا ہے۔بڑے آئے۔۔۔۔۔۔" انہوں نے اپنے اپنے بیلچے اٹھائے اور ریت کے ڈھیر کے اندر گھس گئے۔

(7) کباب کی پلیٹ

چینل بند ہونے کی خبر سب سے آخر میں اس شحص تک پہنچی جس کے ذمے اس ملک کا نظام چلانے کی ذمہ داری تھی۔۔وہ رات کا کھانا کھا رہا تھا جب اس کی بیوی نے اسے یہ خبر دی۔
"اچھا تو یہ بات ہے۔"اس نے سر اٹھا کر کہا " میں نے تو کوئی حکم جاری نہیں کیا۔۔۔ پھر چینل کی بندش کا  یہ حکم آخر کہاں سے جاری ہوا ہے۔"
"وہاں سے جہاں سے آپ کی جلاوطنی کا حکم  جاری ہوا تھا۔۔۔۔"
"اچھا"اس نے ایک گہرا سانس لیا "مجھے وہ کباب کی پلیٹ تو اٹھا کر دو ذرا!!!!"


نوٹ: ان کہانیوں کے تمام حالات تو فرضی ہیں مگر کردار سو فیصد اصلی ہیں ۔۔۔اس لئے کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ نہیں ہو گی۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔