Pages

Thursday, 15 May 2014

عمران خان، دھاندلی اور یہ فرسودہ نظام

عمران خان کے جلسےکے بعد سے اب تک میں حیرت زدہ ہوں کہ وہ جس خود ساختہ دنیا میں رہتے ہیں ، وہ ان کی اپنی تخلیق کردہ ہے یا پھران کےاردگرد موجود مشیروں اور ہاں میں ہاں ملانے والے چمچوں  کی مدد سے بنائی   گئی ہے۔عمران خان کا سارا زور دھاندلی پہ ہے۔ ان کے مطابق پورے ملک میں ایک منظم طریقے سے دھاندلی کر کے ان کی یقینی فتح کو شکست میں بدلا گیا۔ خیر اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس دعوے میں کتنی حقیقت  ہے، پھر بھی تصوراتی طور پر ہی سہی ایک غیر جانبدارمنظرنامہ پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نئے الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور یہ الیکشن بجائے فرسودہ پرچیوں والے  نظام کے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ کچھ لوگ سو  سو ووٹ ڈال  دیں اور کچھ بیچاروں کو ووٹ دینے کا موقع ہی نہ ملے۔ ووٹنگ لسٹوں سے بوگس ووٹ بھی نکال دیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔اور تو اور چیف الیکشن کمشنر بھی ان کی مرضی کا تعینات کر دیا گیا ہے اور ریٹرننگ آفیسر تو اللہ میاں کی گائے ہیں۔۔۔سو دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ملک میں بھی ان کی لہر چل پڑی ہے۔ ہر دوسرے گھرپر پی ٹی آئی کا پرچم لہرا رہا ہے۔پھر 11 مئی 2013  جیسی ہی ایک صبح منصہء شہود پر آ گئی ہے۔ لوگوں میں جوش و خروش کا عالم ہے۔ٹرن آؤٹ پہلے سے بھی زیادہ ہے اور اس مرتبہ جیو نے بجائے نواز شریف کے ان کی فاتحانہ تقریر نشر کی ہے۔۔۔۔خان صاحب کیا سوچتے ہیں۔ کیا وہ پھر بھی جیت پائیں گے؟

پہلے ان کے پسندیدہ خیبر پختونخواہ میں چلتے جہاں وہ ضمنی الیکشن میں پشاور کی اہم ترین سیٹ بھی کھو بیٹھے  تھے۔اس صوبے میں ایک طرف مذہب کے نام لیواؤں کی گرفت مضبوط ہے تو دوسری طرف پشتون نیشنلزم کے ٹھیکیدار بھی اتنے کمزور نہیں ہوئے۔ وہاں سے عمران خان پہلے سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکتے۔

تھوڑا  نیچے پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ پوٹھوہار اور دارالحکومت فتح کرنے میں انہیں پہلے سے زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اور جی ٹی روڈ کے رستے لاہور تک وہ محنت کریں تو انہیں بہت بڑی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے۔لیکن پاکستان کیا لاہور تک آ کے ختم ہو جاتا ہے؟

لاہور سے نیچے چلیں تو پھر وہ علاقے آتےہیں جہاں جاگیرداروں کی گرفت بے حد مضبوط ہے جو صدیوں سے یہاں کے فرمانروا ہیں۔۔۔۔ یہاں کے اکثر لوگ ووٹ تو ڈالتے ہیں مگر اپنی مرضی سے نہیں، نسل در نسل چلے آنے والے چہروں پر مہر تصدیق ثبت کرنا  ہی ان کے نزدیک جمہوریت ہے ۔ جنوبی پنجاب میں عمران خان کے  لئے کامیابی حاصل کرنے امکانات بہت کم ہیں۔یہاں کا نظام ہی اتنا فرسودہ ہے کہ نئے لوگوں کا سامنے آنا ناممکن ہے۔

دیہی سندھ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔۔۔۔ وہی جاگیردار لوگوں کی قسمت کے مالک و مختار ہیں جو اپنے علاقوں میں اس لئے ترقی نہیں دیکھنا چاہتے کہ کہیں لوگ با شعور ہو کر اپنے حقوق نہ مانگ لیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کی طرف آتے ہیں جو مختلف مافیاز کے شکنجے میں ہے اور وہاں سے جیتنا شیر کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہے۔ شہری سندھ میں پوری جان لگانے کے بعد بھی ان کی سیٹوں کی تعداد  دوہرے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔اب رہا بلوچستان تو وہ ہمارے کھاتے سے باہر ہے۔ عمران خان کیا وہ تو ہمارے کسی ادارے یا  سیاستدان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔۔۔۔تو پھر کہاں گئی وہ عظیم الشان کامیابی جسے نواز شریف کی دھاندلی نے ہائی جیک کر لیا۔۔جتنی دھاندلی اس الیکشن میں ہوئی ہے وہ نہ بھی ہوتی تب بھی عمران کی سیٹیں 50 کے ہندسے سے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔

ڈی چوک میں عمران خان کی ریلی کا ایک منظر


عمران خان اور ان کے انقلابیوں کو ابھی یہ سمجھنے میں بہت دیر لگے گی کہ اس ملک میں رائج یہ غاصبانہ نظام ہی ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں حقیقی جمہوریت  پنپ ہی نہیں سکتی۔ جمہوریت ہو یا آمریت، یہی جاگیردار یا سرمایہ دار ہمارے مالک و مختار بنے ہوتے ہیں۔ جب تک ان سے نجات حاصل نہیں ہو تی یہ احتجاج اور یہ سب چیزیں بے سود ہیں۔

عمران خان کو بجائے دھاندلی کا شور مچانے کے ان حقیقی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے وہ اپنی ہوا چلنے کے باوجود شکست سے ہمکنار ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ اس غاصبانہ نظام میں وہ تب ہی الیکشن جیت سکتے ہیں جب وہ مکمل طور پر اس نظام کا حصہ بن جائیں۔۔۔اور ان کی جماعت پر بھی وہی غاصب لوگ قابض ہو جائیں۔۔۔ کچھ لوگ تو کہتے بھی ہیں کہ پی ٹی آئی بھی ان روایتی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے جا رہی ہے جن کا موٹو اقتدار پر قابض ہونے بعد اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔

خیر یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن کبھی کبھی طاہر القادری کی اس بات پہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اس نظام کے تحت دس الیکشن بھی ہو جائیں تب بھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ وہی جانے پہچانے چہرے نام بدل کر مسند اقتدار پر فائز ہونگے اور تبدیلی چاہنے والے لوگ ہمیشہ کی طرح منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔