Pages

Friday 9 May 2014

ہماری سیاست: کل اور آج

ایک زمانہ تھا کہ سیاست کو ایک راہِ پر خار سمجھا جاتا تھا۔ہر ایرا غیرا سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا اور لیڈر ہمیشہ وہ شخص ہوتا تھا جو صبر و استقامت کا پیکر ہو۔ہر کسی میں یہ بھاری پتھر اٹھانے کی سکت نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تب لوگ سیاست کا نام سن کر ناک بوں  نہیں چڑھاتے تھے بلکہ سیاست کو عوامی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھاکالی بھیڑیں موجود تھیں لیکن پیش منظر پر نیک نام لوگ تھے۔

 یہ پاکستان بنے سے پہلے کی باتیں ہیں جب زیادہ تر جاگیردار اور سرمایہ دار انگریز سرکار کے پاؤں چاٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ اور سیاست کے میدان کارزار میں مسلمانوں کمان پڑھے لکھے، بلند حوصلہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔۔۔ وہ میدان سیاست جس میں مولانا آزاد، محمد علی جوہر، جناح،حسرت جیسےلوگ ہوں جن پر ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے، اس کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ان میں سے اکثر نے قابض حکمرانوں کے ہاتھوں طرح طرح کے مصائب سہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگرمسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

محمد علی جناح اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر 1940 میں(تصویر: وکی پیڈیا)


مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں مصائب کسی اور نے اٹھائے اور آزادی کے بعد بنا بنایا ملک انہیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جھولی میں آ گرا ۔ یا پھر ان سپہ سالاروں کے ہاتھوں میں کچھ عرصہ پہلے انگریز سرکار سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔۔۔۔۔یعنی دکھ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔

آج ملک کے ہر شعبے میں ایک مخصوص طبقے کا راج ہے۔ فوج ملک کے اندر ایک اور ملک بنائے بیٹھی ہے۔سیاست چند  پیشہ ور جغادریوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صدیوں ہمارا استحصال کیا ہے، اور آج بھی ملک کی زمام اقتدار انھی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ ملک کو اپنے سابق آقاؤں کی طرز پر چلا رہے ہیں جن کے اقتدار کو جلا بخشنے میں ان کے آباء و اجداد نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

جن لوگوں سے ہندوستان نے تقسیم  کے بعد نجات حاصل کر لی تھی  ہم مذہب ، حب الوطنی اور آزادی کے نام پر آج بھی ان کو اپنا خون پلا کر اور پروان چڑھا رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاست ایک ایسی غلیظ دلدل بن چکی ہے کہ عام آدمی اس میں قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اگر وہ اس میں قدم رکھ بھی لے تو یا وہ خود کو تباہ کر لیتا ہے یا پھروہ کوئلے کی اس کان میں داخل ہو کر اپنا منہ بھی کالا کر لیتا ہے۔


ہمارے سیاست دان


ہمارے ہاسٹل میں سٹھیائے ہوئے ایک بابا جی رہتے تھے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "پاکستان تو ان جاگیرداروں نے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بنایا ہے جو آزادی کے بعد نہرو کے عتاب سے ڈرتے تھے، کہ وہ ان کی ساری زمینیں نہ ہتھیا لے"۔جب میں پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ابتدائی مختصر دور کے علاوہ مجھے مسند اقتدار پر یا تو وردی پوش دکھائی دیتے ہیں یا پھر وہ مٹھی بھر جاگیردار ، سرمایہ دار جنہوں نے پورے ملک کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ تب مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ کہیں وہ بابا جی ٹھیک تو نہیں کہتے تھے؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔